بیرون ملک پاکستانیوں کے 5.3 ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں کا سراغ لگا لیا گیا

بیرونی دنیا پاکستان کی دیانتدارقیادت پر اعتماد کرتے ہوئے تعاون کے لئے تیار ہے، بااثر افراد نے بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کو چھپانے کے لئے اقامے بنائے ماضی کی حکومتیں خود کرپٹ تھیں،منی لانڈرنگ اور بد عنوانی کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے پی ٹی آئی کو عوام نے بد عنوانی کے خاتمے اور بہتر طرز حکومت کے لئے ووٹ دیا ہے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، سینیٹر جاوید فیصل اورافتخار درانی کی پریس کانفرنس

پیر 12 نومبر 2018 16:46

بیرون ملک پاکستانیوں کے 5.3 ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں کا سراغ لگا لیا گیا
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 نومبر2018ء) حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے 5.3 ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں کا سراغ لگا لیا ہے، بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کی رقم سے بنائے گئے اثاثوں کی واپسی کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر کاروائی کا آغاز کیا گیا ہے، سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے اثاثوں کے بارے میں قوم کواس ماہ کے آخر میں بڑی خوشخبری دیں گے، بیرونی دنیا پاکستان کی دیانتدارقیادت پر اعتماد کرتے ہوئے تعاون کے لئے تیار ہے، بااثر افراد نے بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کو چھپانے کے لئے اقامے بنائے، جے آئی ٹی اس وقت منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے کیس پر کام کر رہی ہے جس میں بہت جلد ریفرنس فائل ہوں گے۔

یہ بات وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، پاکستان کے تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر جاوید فیصل اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار دورانی نے پیر کو یہاں انفارمیشن سروس اکیڈمی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ آج کی اس پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد قوم کواقامے کے پیچھے ڈرامے اور اس سے پیدا کئے جانے والے ہنگامے کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ نواز شریف نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ پر 2 چیزوں کے لئے نکلے تھے ایک عوام کا ووٹ اور دوسرا این آر او تھا لیکن انہیں کچھ نہ مل سکا، البتہ شہزاد اکبر کو ان کے اقاموں کے حوالے سے بہت کچھ مل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اقامے وہ محنت کش پاکستانی حاصل کرتے ہیں جو گزشتہ 20،20 برسوں سے دیار غیر میں محنت مزدوری کرکے قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت چل رہی ہے۔

دوسری طرف کااقامہ وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو پاکستان میں صاحب اختیار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی سیلز منیجر کی نوکری کرتے ہیں اسی طرح احسن اقبال اور خواجہ آصف کے پاس بھی اقامے ہوتے ہیں۔یہ اقامے بنیادی طورپرلوٹی ہوئی دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور اس بارے تحقیقات سے بچنے کے لئے یہ اقامے ان کے کام آتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے حوالے سے اتنے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے ۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی کی حکومتیں چونکہ خود کرپٹ تھیں اس لئے منی لانڈرنگ اور بد عنوانی کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات نہیں ہوئے۔ انہی حکمرانوں کی وجہ سے قوم پر قرضوں کا بوجھ 6 ارب سے بڑھ کر 30 ہزار ارب تک بڑھا ہے اور ان کی طرز حکمرانی کی وجہ سے پاکستان کی غریب عوام غریب تر اور امیر امر تر ہوتے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے خلاف اس لئے اتنے بڑے پیمانے پر کاروائی ہو رہی ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کرپٹ نہیں ہے اور وہ بد عنوانی کے خاتمے کی قوم کی خواہش کے مطابق اقدامات کررہے ہیں۔ عمران خان پر قوم نے اعتماد کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت پر عوامی اعتماد کی سب سے بڑی مثال گزشتہ سہ ماہی میں بیرونی ملک سے بھیجی ریکارڈ7.4 ارب ڈالر ترسیلات زر ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کے خلاف حکومتی اقدامات کی وجہ سے شہباز شریف، خورشید شاہ اور فضل الرحمن کے چہروں پر گھبراہٹ ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ حکومت ان سے ایک ایک پیسہ واپس لے گی۔ احتساب کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ بیرون ملک سے اثاثوں کی واپسی کے لے قائم یونٹ کی کوششوں سے دس ممالک پر ہم نے توجہ مرکوز کی ہے اور ہمیں پاکستانیوں کے 5.3 ارب ڈالر جو تقریباً دو سو ارب روپوں کے مساوی ہیں اثاثوں کے بارے میں معلومات ملی ہیں جو غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کئے گئے۔

یہ لوٹی ہوئی دولت کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے، ابتدائی طور پر ہم نے دس لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کے اثاثوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ دبئی میں اثاثوں کی معلومات وہاں کی لینڈ اتھارٹی کی فراہم کردہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ دبئی میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں پاکستان چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بااثر افراد نے اقامے اس لئے بنائے تھے کیونکہ جب اس حوالے سے تحقیقات کی جاتی ہیں تو اقامہ رکھنے والے افراد کے اثاثوں کی تفصیلات خفیہ رہ جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بااثر افراد اپنے ملازمین کے نام پر جعلی اکائونٹ بناتے اور جائیدادیں بناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن 5.3 ارب ڈالر مالیت کے اثابوں کا پتہ چلا ہے ان میں 1.3 ارب ڈالر منی لانڈرنگ سے متعلق ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اب تک پانچ ہزار سے زائد جعلی اکائونٹس کا پتہ چلا ہے جو عام شہریوں کے نام پر ہیں اور کوئی مسیحا ان کے اکائونٹس میں چپکے سے پیسے ڈال دیتا ہے اور ٹی وی پر آکر باتیں بھی کرتا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اکائونٹس کے حوالے سے تمام تر تفصیلات آچکی ہیں، جو لوگ بڑھ چڑھ کر جمہوریت کا ماتم کر رہے ہیں وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔اس بارے میں ریفرنس جلد دائر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر اقدامات سپریم کورٹ کے احکامات اور متعلقہ قواعد وضوابط کے تحت کئے جا رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہل میٹلز کیس کا فیصلہ سامنے آئے گا تو ساری صورتحال واضح ہو جائے گا۔

کیونکہ ہل میٹلز وہ بابرکت فیکٹری ہے جس سے پاکستان اور لندن ہرجگہ جائیدادیں بنانے کیلئے سرمایہ منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ فلیگ شپ انوسٹمنٹ کے لئے بھی سرمایہ ہل میٹلز سے منتقل کیا گیا۔ اثاثوں کی پاکستان منتقلی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور باہمی سمجھوتے بھی کئے جارہے ہیں۔

دبئی کے حکام سے ہم نے وہاں پہنچنے پر حاصل کردہ کیش ڈکلریشن کی تفصیلات بھی مانگی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کے وزیر انصاف سے بھی عنقریب ملاقات ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے ساتھ تحویل مجرمان اور باہمی تعاون کے سمجھوتوں پر بھی پیشرفت ہو رہی ہے۔ باہر کے ممالک ہمارے ساتھ اس لئے تعاون کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی قیادت دیانتدار ہے، اس کے علاوہ منی لانڈرنگ اور کالے دھن کے حوالے سے دنیا کے خدشات بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اثاثوں کی واپسی کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، پہلے مرحلے میں اثاثے منجمد کئے جاتے ہیں اور بعدازاں ان کی منتقلی کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسسیٹ ریکوری یونٹ کا کام اثاثوں کا پتہ لگانا ہے جبکہ قانونی کارروائی اور تحقیقات کے لئے متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کردار بھی قابل تعریف ہے جو اس عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمٰی کی ہدایت پر بننے والی جے آئی ٹی اس وقت منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے کیس پر کام کر رہی ہے جس میں بہت جلد ریفرنس فائل ہوں گے، اگلے تین سے چار ہفتوں میں ریفرنس دائر ہو سکتا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں پڑے پاکستانیوں کے اثاثوں کے بارے میں اس ماہ کے آخر میں بہت بڑی خوشخبری سنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسسیٹ ریکوری یونٹ مجموعی اثاثوں کا پتہ لگا رہا ہے، ہم انفرادی کیسوں پر کام نہیں کر رہے تاہم واضح کرتے ہیں کہ حکومت بدعنوانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے منی لانڈرنگ کیس میں تمام ثبوت برطانیہ میں جرائم کے انسداد کے لئے قائم ایجنسی ( این سی ای) کو دیئے گئے ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ایسیٹ ریکوری یونٹ کوئی بھی کیس ایف آئی اے کو ریفر کرے گی، کیس آگے بڑھیں گے تو اس میں ملوث لوگ ای سی ایل میں ڈالے جاسکیں گے۔

پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال پر سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ اس وقت کمزور اپوزیشن ہے ، اس سے کمزور اپوزیشن نہیں آسکتی۔ انہوں نے کہاکہ دونوں جماعتوں نے ماضی میں " چارٹر آف کرپشن" میں ایک دوسرے کے ساتھ طے کیا ہوا تھاکہ ایک دوسرے کی چوری کو چھپانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ایسا بندہ ہونا چاہیے جس میں خود پر کوئی کیس نہ ہو۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لئے حکومت کی طرف سے کھلی آفر دی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کو عوام نے بد عنوانی کے خاتمے اور بہتر طرز حکومت کے لئے ووٹ دیا ہے۔ ہم غلط روایتوں کی پاسداری نہیں کر سکتے۔ پی اے سی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کے پاس جانے کی کوئی قانونی روایت نہیں ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں