بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، آئی پی پیز سے مہنگے معاہدے کرنے والے توانائی کے بحران کے ذمہ دار ہیں،

تیل و گیس کی تلاش کے لئے 26 نومبر کو 10 بلاکس کی اوپن نیلامی ہو رہی ہے، 2019ء کی پٹرولیم پالیسی صوبوں کو اعتماد میں لے کر بنائیں گے وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کا ایوان بالا میں اظہارخیال

پیر 12 نومبر 2018 22:39

بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، آئی پی پیز سے مہنگے معاہدے کرنے والے توانائی کے بحران کے ذمہ دار ہیں،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 نومبر2018ء) وفاقی وزیر پٹرولیم ڈویژن غلام سرور خان نے کہا ہے کہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، آئی پی پیز سے مہنگے معاہدے کرنے والے توانائی کے بحران کے ذمہ دار ہیں، تیل و گیس کی تلاش کے لئے 26 نومبر کو 10 بلاکس کی اوپن نیلامی ہو رہی ہے، 2019ء کی پٹرولیم پالیسی صوبوں کو اعتماد میں لے کر بنائیں گے۔

پیر کو ایوان بالا میں قرضوں کی صورتحال، خارجہ پالیسی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر معاملات پر تحاریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ ہمارے ایشوز آج کے نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر محیط ہیں، توانائی کا بحران 1970 میں پیدا ہوا، اس سے قبل پانی اور توانائی کا کوئی بحران نہیں تھا، اس کی بڑی وجہ ڈیموں کا نہ بننا ہے، 1970ء تک بڑے ڈیم بنے لیکن اس کے بعد یہ عمل رک گیا، ہائیڈرو پر توجہ نہ دی گئی جو سب سے سستی بجلی تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس بحران کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں آئی پی پیز سے بجلی کے مہنگے معاہدے کئے۔ انہوں نے کہا کہ کاش آج اپوزیشن تذلیل اور تضحیک کرنے کی بجائے کوئی مثبت تجاویز دیتی۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد تین مختلف حکومتوں نے تین بار رکھا، 2004ء میں اس کا پہلی بار سنگ بنیاد رکھا گیا، اس کے بعد 2010ء میں اور آخری بار 2013ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا لیکن ڈیم کے لئے رکھا جانے والا پیسہ موٹرویز اور میٹروز کی تعمیر پر لگا دیا گیا، 120 ملین ڈالر کی زمین جس میں اپنا فائدہ تھا اس پر فخر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیلم جہلم ابتدائی تخیمنہ 84 بلین روپے تھا جو کرپشن اور سست روی کے باعث 500 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2006ء تک سٹیل ملز اور پی آئی اے نفع میں جا رہے تھے، آج سٹیل ملز 470 ارب روپے کے خسارے میں ہے اور مزدوروں کو تنخواہ دینے کے لئے خصوصی پیکج دیئے جا رہے ہیں، ماضی میں جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹا گیا، پی آئی اے کا خسارہ 200 ارب روپے سے بڑھ چکا ہے، 38 بلین ڈالر کا ایئر پورٹ ایک ٹریلین سے اوپر کا تیار ہوا اور اس میں سہولیات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز اور ایئرپورٹ کرپشن میں سپریم کورٹ نے سو موٹو لے کر ایف آئی اے اور نیب کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی گیس میں لائن لاسز اور چوری 8 سالوں میں 8 سے بڑھ کر 13 فیصد ہو چکی ہے، مہنگی گیس اور بجلی لے کر سستی دے رہے ہیں، چوری اس کے علاوہ ہے اور سب سے زیادہ چوری تخت لاہور میں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لئے گیس کی قیمت صرف 2 فیصد بڑھی ہے، اس کے مقابلے میں ایل پی جی سستی کی ہے، 1800 کا سلنڈر اب 1400 کا مل رہا ہے، اس پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، پاکستان میں پٹرول 97 اور ڈیزل 112 روپے فی لیٹر ہے جبکہ بھارت میں پٹرول 145 اور ڈیزل 135 روپے فی لیٹر ہے۔

انہوں نے کہا کہ تیل و گیس کی تلاش اصل کام تھا جس پر کوئی توجہ نہ دی گئی، مینڈیٹ تو پانچ سال کا ملا تھا اور ایل این جی کے معاہدے 15 سال کے لئے کئے گئے اور اس پر 3 سال کوئی بات نہیں کی جا سکتی، اس طرح اس ایل این جی معاہدے کو مشکوک بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تیل و گیس کی تلاش اہم ہے، 26 نومبر کو 10 بلاکس کی اوپن نیلامی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کی پٹرولیم پالیسی صوبوں کو اعتماد میں لے کر تشکیل دیں گے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں