چیئر مین سینٹ نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سینیٹ کے رواں سیشن میں داخلے پر پابندی عائد کردی

اپوزیشن کی جانب سے فواد چوہدری کے معافی مانگنے تک ایوان کا واک آؤٹ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی مشاہد اللہ کی تقریر اور ہمارے وزیر کی تقریر کا بھی متن لائیں، دیکھیں اجلاس میں کس نے غیر پارلیمانی بات کی ،ْ سینیٹر شبلی فراز ممبران پرچیئرمین، قائد ایوان اور حزب اختلاف کا احترام لازم ہے ،ْ ایوان میں ایسے الفاظ اور اشارے نہ کریں جو غیر مناسب ہیں ،ْ چیئر مین سینٹ ایوان کے تقدس کے بارے میں بات کررہا ہوں ،ْ مجھے روکا جا رہا ہے، ہم ہی ایوان کی کارروائی چلانے کیلئے چیئرمین سے بھرپور تعاون کریں گے ،ْ سینیٹر فیصل جاوید ہمیں ایوان کے تقدس کا ہر حال میں خیال رکھنا چاہیے ،ْ حکومت کو برداشت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ،ْاپوزیشن اراکین کا خطاب کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ہم ایسا بل لائیں گے کہ کوئی کرپشن کرنے والا جمہوریت اور سیاست کے پیچھے نہیں چھپ سکے گا ،ْ قائد ایوان حکومت کو کرپشن روکنے سے کوئی نہیں روک رہا ،ْ یہ احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے ،ْ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق کا خطاب اسلام آباد سے اغواء کر کے پولیس افسر کو افغانستان لے جایا گیا، اگر اسلام آباد میں افسران محفوظ نہیں تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا، اراکین سینٹ طاہر داوڑ کی قربانی کو بھلایا نہیں جا سکتا، سیف سٹی منصوبے میں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے تو تحقیقات کرائی جائے، میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھا جانا چاہیے ،ْمشاہد اللہ خان

جمعرات 15 نومبر 2018 17:45

چیئر مین سینٹ نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سینیٹ کے رواں سیشن میں داخلے پر پابندی عائد کردی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2018ء) چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سینیٹ کے رواں سیشن میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔تفصیلات کے مطابق ایک روز قبل سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جس پر چیئرمین نے وفاقی وزیر کا مائیک بند کردیا اور غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرنے پر انہیں تنبیہ کی۔

جمعرات کو سینیٹ میں وفاقی وزیر کے رویئے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور فواد چوہدری کی معافی کا مطالبہ کردیا۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز کی بدمزگی کا ہمارے پاس علاج نہیں، سوائے اس کے کہ ہم باہر چلے جائیں، چیئرمین سینیٹ کے پاس اس کا علاج ہے، اگر آپ کی بھی بات نہ مانی جائے تو واک آؤٹ کرنا پڑیگا۔

(جاری ہے)

اپوزیشن کی جانب سے فواد چوہدری کے معافی مانگنے تک ایوان کا واک آؤٹ کرنے کی دھمکی دی گئی۔سینیٹر حاصل بزنجو نے وفاقی وزیر کی جانب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک یہ شخص ایوان سے معافی نہیں مانگے گا، اپوزیشن ایوان میں نہیں بیٹھے گی۔سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے فواد چوہدری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مشاہد اللہ خان نے ایک ممبر کابینہ کے بارے میں جو بات کی تھے اس کا متن منگوا لیں، مشاہد اللہ کی تقریر اور ہمارے وزیر کی تقریر کا بھی متن لائیں، دیکھیں اجلاس میں کس نے غیر پارلیمانی بات کی۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ سینیٹ میں بدمزگی پیدا ہونا شروع ہوئی ہے ،ْہم سب پر لازم ہے کہ احتیاط کریں۔چیئرمین سینیٹ نے وفاقی وزیر اطلاعات کو معافی مانگنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری ایوان میں آکر معافی مانگیں، اگر معافی نہیں مانگتے تو ان پر جاری اجلاس میں داخلے پر پابندی لگاتا ہوں۔صادق سنجرانی نے کہا کہ ممبران پر لازم ہے کہ وہ چیئرمین، قائد ایوان اور حزب اختلاف کا احترام کریں، ممبران ایوان میں ایسے الفاظ اور اشارے نہ کریں جو غیر مناسب ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کی ہدایت کے بعد سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ایک گروہ ہے جو عملی طور پر پارلیمنٹ کو بے توقیر کرتا رہا، اب یہ اندربیٹھ کر پارلیمان کو بے توقیر کررہے ہیں، جب بھی اجلاس ہوگا وزیر اطلاعات آکر چیئرمین اور ایوان سے معافی مانگے گا اور کہے گا کہ آئندہ ایسا عمل دوبارہ نہیں کروں گا۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سینیٹ میں آکر معافی نہیں مانگی جس کے بعد چیرمین سینیٹ کی رولنگ کے تحت ان کے رواں سینیٹ سیشن میں داخلے پر پابندی عائد ہوگئی ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ تمام وزراء اور حکومتی ارکان پارلیمنٹ کے تقدس اور وقار کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کا تقدس اس وقت پامال ہوجاتا ہے جب کوئی ایوان میں کہی گئی بات پر استثنیٰ مانگ لیتا ہے، ایوان میں تو کہا گیا تھا کہ ’’یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس لئے گئے لیکن وہ ذرائع شاید جھوٹے ذرائع تھے‘‘ ، یہ بات پرانی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایوان میں ایوان کے تقدس کے بارے میں بات کررہا ہوں لیکن مجھے روکا جا رہا ہے، ہم نے ہی یقینی بنانا ہے کہ ہم ایوان کی کارروائی چلانے کیلئے چیئرمین کا بھرپور تعاون کریں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ایوان کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ ایوان کے احترام کا تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں غلط الفاظ کی ادائیگی سے گریز کریں۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہمیں ایوان کے تقدس کا ہر حال میں خیال رکھنا چاہیے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ حکومت کو برداشت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اپوزیشن کی تنقید سے جمہوریت اور حکومت مضبوط ہوتی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ایوان کے تقدس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ہمیں برداشت کی روایت کو عام کرنا چاہیے۔

سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ایوان کے تقدس اور وقار کو برقرار رکھنے کیلئے چیئرمین سینٹ کی رولنگ بہت اہم ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہم امید ہے کرتے ہیں کہ ایوان کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا جائے گا۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ایک دوسرے کے خلاف ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے جس سے ایوان اور چیئر کا تقدس پامال ہو۔

سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ رولز کے مطابق کام ہو تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا، امید کرتے ہیں کہ اس ایوان میں ان امور پر ہی بات ہو گی جو عوام کے فائدے کے لئے ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت اور اداروں کی کارکردگی کے بارے میں بات کرنے کا ہر کسی کو حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کا شروع سے ہی رونا رو رہے ہیں، ہمارے ملک کے ادارے غیر فعال ہوچکے ہیں، قابل افسران کی بجائے وفاداروں کو نوازے کی وجہ سے ایسا ہوا، سیاسی تعیناتیوں سے اداروں کی صلاحیت متاثر ہوئی، خیبرپختونخوا میں ہم نے پولیس کو غیر سیاسی بنایا ہے، سفارش کی بنیاد پر ہم نے تعیناتیاں نہیں کیں، بدقسمتی سے باقی ملک میں ایسا نہیں ہوا، اب ہم اہل افراد کو اداروں میں تعینات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں سلمان تاثیر کے صاحبزادہ، یوسف رضا گیلانی اور پروفیسر اجمل خان بھی اغواء ہوئے تھے، ہم کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہونا چاہیے، سیف سٹی منصوبے کے ذکر پر کسی کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں، عوام کے ٹیکسوں سے یہ منصوبہ مکمل ہوا ہے، کرپشن دیمک کی طرح ملک کو چاٹ رہی ہے، کرپشن نہ ہوتی تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ، گردشی قرضہ اور معیشت کی حالت یہ نہ ہوتی، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو ختم کریں، احتساب بھی ہو گا، احتساب کے اداروں کو فعال بھی بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا سے کچھ ملازمین کو نکالنے کے معاملے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، میڈیا کرپشن کے خلاف جدوجہد میں ہمارے شانہ بشانہ رہا ہے، ہماری پوری کوشش ہو گی کہ کیمرہ مین اور صحافیوں کی ملازمت کو تحفظ حاصل ہو، میڈیا پر اثر انداز نہیں ہوں گے، ہم ہر حال میں صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ایوان کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے چلانے کی ذمہ داری زیادہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کا خاتمہ اہم ہے لیکن اس کو سیاسی مخالفین کے خلاف نعرے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔اجلاس کے دو ران طاہر داوڑ شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ اسلام آباد سے اغواء کر کے انہیں افغانستان لے جایا گیا، اگر اسلام آباد میں افسران محفوظ نہیں تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا، اس واقعہ سے پولیس کے مورال پر بھی اثر پڑے گا، واقعہ کی انکوائری رپورٹ ایوان میں پیش کی جانی چاہیے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ طاہر خان داوڑ کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں، ان کی شہادت پر ہر پاکستانی غمزدہ ہے، ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ طاہر خان داوڑ کے اغواء اور شہادت کے واقعہ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ طاہر خان داوڑ جیسے افسران کی وجہ سے ہی ملک میں امن ہوا ہے، انہیں بہادری کا مظاہرہ کرنے پر تمغہ عطا کیا جانا چاہیے اور ان کے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے، یہ ایوان قربانیاں دینے والے افسران اور اہلکاروں کو سلام پیش کرتا ہے۔

سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ملک میں اتنی ایجنسیوں اور پولیس کے ہوتے ہوئے طاہر خان داوڑ کا اغواء کیسے ہو گیا، ہمیں اس معاملے کا جائزہ لینا ہو گا۔ سینیٹر صابر شاہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس سالوں سے قربانیاں دے رہی ہے، ہماری پولیس اور عوام دہشت گردوں کے آگے آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہے، طاہر خان داوڑ شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

سینیٹر رانا محمود الحسن نے کہا کہ طاہر داوڑ شہید کو بڑے سے بڑا ایوارڈ ملنا چاہیے، یہ ان کا اور ان کے بچوں کا حق ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ طاہر داوڑ کی قربانی کو بھلایا نہیں جا سکتا، سیف سٹی منصوبے میں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کرائی جائے، میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ شیری رحمن نے کہا کہ ایک شخص اسلام آباد سے اغواء ہو کر جہلم کیسے پہنچا، طاہر خان داوڑ شہید کے اغواء اور پھر ان کی شہادت تک کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔

سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ طاہر داوڑ کی شہادت کا واقعہ افسوسناک ہے، انہیں بڑا سے بڑا ایوارڈ دیا جانا چاہیے، ملک میں امن کیلئے پہلے بھی ہمارے افسران اور اہلکار جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ہیں، ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ طاہر خان داوڑ کی شہادت ایک بہت بڑا المیہ ہے، ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس (آج) صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں