پاکستانی طلبا ''آئس'' نامی نشے کے عادی ہو گئے

''آئس'' کے عادی افراد 10 سے 12 گھنٹے حیرت انگیز حد تک چُست رہتے اور جاگتے رہتے ہیں

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 17 دسمبر 2018 13:59

پاکستانی طلبا ''آئس'' نامی نشے کے عادی ہو گئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 دسمبر2018ء) : پاکستان کی کئی مشہور یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی اداروں میں نشے کے عادی طلبا و طالبات کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی طلبا سب سے زیادہ جس نشے کا استعمال کرتے ہیں وہ کرسٹل میتھ ہے جسے عام زبان میں ''آئس'' کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ''آئس'' نامی اس نشے کا استعمال دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

''آئس'' سپلائی کرنے والے منشیات فروش طلبا کو یہ جھانسہ دے کر اس نشے کا عادی بناتے ہیں کہ اس سے ان کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ اور یاد داشت اچھی ہو گی۔ اس نشے کے عادی افراد 10 سے 12 گھنٹے حیرت انگیز حد تک چُست رہتے ہیں اور جاگتے رہتے ہیں ، اسی وجہ سے طلبا کو کئی جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

''آئس'' نامی یہ نشہ کسی بھی شخص کو اپنا اس قدر عادی بنا لیتا ہے کہ اگر کوئی نشے کا عادی شخص خود بھی اس سے چھُٹکارا حاصل کرنا چاہے تو ایسا نہیں کر سکتا۔

لہٰذا تمام طلبا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ صرف گریڈز لینے اور ذہنی صلاحیت بڑھانے کی خاطر ہرگز اس نشے کا عادی نہ بنیں اور منشیات سے گریز کریں۔گذشتہ برس شہر اقتدار کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال کافی عام ہو گیا تھا جس نے نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جان لیوا نشے کے بے دریغ استعمال کے لیے منشیات فروشوں نے نشہ کرنے کے نت نئے طریقے بھی ڈھونڈ نکالے۔

آئس کے علاوہ آکسیجن شاٹس اور پار ٹی ڈرگز نوجوان نسل میں زیادہ مقبول ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا بے دریغ استعمال نوجوان نسل کے مستقبل کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ 3500 سے 4000 روپے میں ایک گرام منشیات خرید کر 20 سے 25 افراد اپنے نشے کی لت پوری کر لیتے ہیں۔ یہی نہیں حکومت کی جانب سے شراب، کوکین، گردہ اور چرس کی تعلیمی اداروں کے اندر سپلائی اور استعمال کو روکنے کے اقدامات کے بعد نوجوان نسل کو برباد کرنے والے مافیا نےچاکلیٹ ،چیونگم، لالی پاپ،انرجی ڈرنکس اور خشک دودھ کی صورت میں نئے نشہ کو تعلیمی اداروں میں متعارف کروایا گیا تھا۔

چیونگم اور چاکلیٹ میں ایسے کیمیکل موجود ہیں جس کے استعمال سے نشہ تو ہوتا ہے مگر دماغ سُن ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کےمطابق یہ نشہ آور چیزیں تھائی لینڈ، بھارت اور سنگاپور سے اسمگل ہوکر پاکستان آ رہی ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹرز نے اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا کے والدین کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں اور ان کے دوست احباب سے متعلق بھی پوری طرح باخبر رہیں تاکہ وہ اپنے بچے کو نشے جیسی لعنت کا عادی بننے سے بچا سکیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں