مزید مہلت کی دینے کی استدعا ،ْ

احتساب عدالت نے نواز شریف کیخلاف 2 نیب ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا ،ْ24 دسمبر کو سنایا جائیگا حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں ،ْ خواجہ حارث نواز شریف کی تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا ،ْوکیل نوازشریف کے جواب الجواب نواز شریف جج محمد بشیر کی عدالت میں 87 اور ارشد ملک کی عدالت میں 78 مرتبہ پیش ہوئے ،ْ مجموعی طور پر 165 مرتبہ پیش ہوئے ،ْرپورٹ

بدھ 19 دسمبر 2018 14:52

مزید مہلت کی دینے کی استدعا ،ْ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 دسمبر2018ء) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے قائد ،ْ سابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز پر فریقین وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلے محفوظ کرلیے جنہیں 24 دسمبر کو سنایا جائیگا جبکہ عدالت نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت کی درخواست مسترد کر دی ۔

بدھ کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کی جس کے دوران فریقین کی جانب سے ریفرنسز کے قانونی نکات پر دلائل دئیے گئے۔سابق وزیراعظم کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلے محفوظ کرلیے۔

(جاری ہے)

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دئیے کہ بیان ریکارڈ کر نے کے بعد ملزم نے مزید وقت مانگا ہے جبکہ مزید وقت مانگنے کی درخواست پر نیب کا موقف تھا کہ مزید مہلت فیصلے میں تاخیر کا باعت بن سکتی ہے۔

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں نئی دستاویزات پیش کرتے ہوئے نیب ریفرنسز کے قانونی نکات پر حتمی دلائل مکمل کیے جس کے بعد پراسیکیوٹر نیب نے دلائل دیئے ۔خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ یہ کہتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ نہیں اور اس پر تو لکھا ہے یہ تفتیشی رپورٹ ہے جبکہ اس رپورٹ کا نام ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیشی رپورٹ ہے۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کی ملازمت اور تنخواہ سے متعلق عدالتی سوالات کے جواب بھی دئیے اور کہا کہ نواز شریف کی یہ ملازمت صرف ویزا حاصل کرنے کیلئے تھی ،ْ وہ وہاں سے تنخواہ لے سکتے تھے مگر تنخواہ وصول نہیں کی۔خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے کہا اگر وہ تنخواہ آپ نے نہیں بھی نکلوائی پھر بھی اثاثہ ہے جس پر میرا مؤقف ہے کہ تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا اور وہ صرف کنٹریکٹ کی ضرورت پوری کرنے کیلئے تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا اس کمپنی میں عہدہ صرف رسمی تھا،کمپنیاں چلانے سے اٴْن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔جج ارشد ملک نے استفسار کیا تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لیں تو اس کا کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا تعلق یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 20 اپریل والے فیصلے پر نظرثانی نا کرنے کا بھی جواب دیتا ہوں ،ْاکثریتی فیصلہ ہی ہمیشہ اصل فیصلہ مانا جاتا ہے، 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور انہوں نے اپنا فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا اور 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 28 جولائی کے اسی 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دی تھی۔یاد رہے کہ نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے گزشتہ روز اپنے حتمی دلائل مکمل کیے، اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پیر کے روز اپنے حتمی دلائل مکمل کیے تھے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں 87 اور ارشد ملک کی عدالت میں 78 مرتبہ پیش ہوئے اور مجموعی طور پر وہ 165 مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں