سپریم کورٹ آف کا ڈی جی اینٹی کرپشن کو جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر کے جوابات کا جائزہ لیکر دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم

مجھے اپنے افسروں پر پورا اعتبار ہے، پاکپتن کیس میں اینٹی کرپشن نے رپورٹ دی ہے، یہ ہمارے ہیرے ہیں ،ْ چیف جسٹس کے پی کے ایل آئی سروس سٹرکچر کیس کی سماعت کے دور ان ریمارکس

بدھ 16 جنوری 2019 15:06

سپریم کورٹ آف کا ڈی جی اینٹی کرپشن کو جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر کے جوابات کا جائزہ لیکر دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی کے ایل آئی سروس سٹرکچر کیس کی سماعت کے دور ان ڈی جی اینٹی کرپشن کو جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لیتے ہوئے دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجھے اپنے افسروں پر پورا اعتبار ہے، پاکپتن کیس میں اینٹی کرپشن نے رپورٹ دی ہے، یہ ہمارے ہیرے ہیں۔

بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لور انسٹیٹیوٹ کے سروس سٹرکچر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ٹھیکیدار کے وکیل نعیم بخاری نے مؤقف اپنایا کہ ٹھیکیدار اپنے 1.2 ارب روپے واپس لینا چاہتا ہے، میرے موکل کو حیرانی ہے کہ کیسے ٹھیکے کو زائد نرخ قرار دیا گیا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پراجیکٹ کو مکمل کونے دیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تو کوئی امر مانع نہیں، آپ نے اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر جواب جمع کروادیا ہے، وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ رپورٹ بورڈ چیرمین اقبال حمید الرحمان کو بھیج دیں، یہ ساری رپورٹ غلط معلومات پر تیار کی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سب عدالت نے تعین کرنا ہے، چیف جسٹس نے اینٹی کرپشن سے کہا کہ اگر پرچے بنتے پیں تو درج کرے، نعیم بخاری نے کہا کہ پرچے سے کام رک جائے گا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کوئی کام نہیں رکے گا، اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب میں پی کے ایل آئی گیا ہوں وہاں کام کا معیار بہت کم ہے، کوئی کام سٹیٹ آف دی آرٹ نہیں ہوا جس کے نعرے لگائے گئے، 22 ارب خرچ ہو گئے یہ کم رقم نہیں، اتنی کوشش کے بعد ڈیم فنڈ کے لیئے 9 ارب جمع ہوئے ہیں ۔

وکیل آرکیٹکٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منصوبے کے آرکیٹکٹ پر الزام لگا کہ ہزار بیڈ کا ہسپتال تھا 400 بیڈ بنا رہے ہیں، ہسپتال ہم نے تو نہیں حکومت نے بنانا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جے آئی ٹی رپورٹ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، ابھی تفتیش اور ٹرائل ہونا ہے، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر حسین اصغر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حسین اصغر صاحب اس معاملے پر آپ نے کیا کرنا ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کا موقف لیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اپنے افسروں پر پورا اعتبار ہے، پاکپتن کیس میں اینٹی کرپشن نے رپورٹ دی ہے، یہ ہمارے ہیرے ہیں، عدالت نے ڈی جی اینٹی کرپشن جے آئی ٹی کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لیتے ہوئے دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں