حکومت کو سعودی ولی عہد کے اعزاز میں دئے جانے والے عشائیے میں اپوزیشن کو مدعو کرنا چاہئیے

سعودی ولی عہد جس آئل ریفائنری کی بات کر رہے ہیں ، اس کی بات پہلی مرتبہ 2015ء میں ہوئی تھی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 16 فروری 2019 11:08

حکومت کو سعودی ولی عہد کے اعزاز میں دئے جانے والے عشائیے میں اپوزیشن کو مدعو کرنا چاہئیے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔16 فروری 2019ء) : سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں دونوں ممالک کے مابین کئی معاہدے ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر سعودی ولی عہد کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا جائے گا لیکن گذشتہ روز حکومت نے اس عشائیے میں اپوزیشن رہنماؤں کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

کچھ ممالک ایسے ہیں جن کے پاکستان کی حکومت کے ساتھ تعلقات نہیں ہوتے بلکہ ان کے تعلقات پاکستان کی ریاست اور عوام کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں سعودی عرب ، ترکی ، چین اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی عرب اور پاکستان کا جو رشتہ ہے وہ کسی صورت بھی ایک حکومت کا دوسری حکومت کے ساتھ رشتہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ملک کا دوسرے ملک کے ساتھ رشتہ ہے۔

ایک ملک کی عوام کا دوسرے ملک کی عوام کے ساتھ رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمد بن سلمان جو دورہ پاکستان پر آ رہے ہیں، وہ پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری لے کر آ رہے ہیں۔ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کے حوالے سے بھی ایک بہت بڑا دورہ ہے۔ لیکن اس حوالے سے جو میری معلومات ہیں، ان کے مطابق محمد بن سلمان پاکستان میں جس آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہیں اس آئل ریفائنری کا جو منصوبہ ہے اس پر دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین اکتوبر 2015ء میں پہلی مرتبہ بات چیت ہوئی تھی۔

اکتوبر 2015ء میں نواز شریف کی حکومت تھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے۔ محمد بن سلمان کی جو ساری بات چیت تھی وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ہوئی تھی۔ اب اگر ایک منصوبہ 2015ء میں شروع ہوا اور اس پر 2019ء میں عملدرآمد ہو رہا ہے تو یہ منصوبہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی حکومت اور سعودی عرب کی حکومت کے مابین ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہئیے کہ اگر محمد بن سلمان پاکستان آ رہے ہیں تو ان کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان کی قوم سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک ہی موقف رکھتی ہے۔

اگر سعودی ولی عہد سے ملاقات کے لیے صرف حکومت اور اتحادی جماعتوں کے لوگوں کو ہی مدعو کیا جائے گا تو اس سے سعودی عرب پر پاکستان کا تاثر اچھا نہیں جائے گا۔ حال ہی میں سعودی سفارتخانے میں جو سعودی عرب کا قومی دن منایا گیا تھا اس تقریب میں حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ اسی لیے حکومت کو بھی چاہئیے کہ سعودی ولی عہد کے اعزاز میں دئے جانے والے عشائیے میں اپوزیشن کو بھی مدعو کیا جائے اور دنیا کو پیغام دیا جائے کہ یہ تعلق دو حکومتوں کا نہیں بلکہ دو ریاستوں کا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز موصول ہونے والی خبروں کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان پر حکومت کی جانب سے دئے گئے عشائیے میں اپوزیشن کو مدعو نہیں کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کوعشائیےمیں مدعونہ کرنےکا فیصلہ کیا گیا، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کو بھی عشائیے میں مدعونہیں کیا گیا جبکہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو سمیت کسی اپوزیشن رہنما کو عشائیے میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ تاہم سیاسی مبصرین نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور تجویز دی ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کو بھی اس عشائیے میں مدعو کیا جانا چاہئیے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں