موبائل فون ٹیکس کے نام پر عوام کی جیبوں سے بہت بڑی رقم نکالی گئی۔ چیف جسٹس

ریاست کو لوگوں کی جیبوں سے اس طرح پیسہ نہیں نکالنا چاہئیے، ہر شہری کو قابل ٹیکس سمجھ لیا ہے،ریاست کو ہر شہری کے ساتھ مخلص ہونا چاہئیے۔ سپریم کورٹ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 22 اپریل 2019 14:51

موبائل فون ٹیکس کے نام پر عوام کی جیبوں سے بہت بڑی رقم نکالی گئی۔ چیف جسٹس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین -22 اپریل2019ء) سپریم کورٹ میں موبائل کارڈ ٹیکس کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ موبائل کارڈ پر ہر صارف کو ایڈوانس ٹیکس دینا ہوتا ہے۔جس صارف پر انکم ٹیتکس کا اطلاق نہیں ہوتا وہ ریفنڈ لے سکتا ہے۔جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ریڑھے پر بیٹھا شخص ریفنڈ کے لیے انکم ٹیکس کمشنر کے پاس جائے۔

ریڑھے والوں کی بھی بڑی آمد ہوتی ہے۔ریاست کو اپنے ہر شہری کے ساتھ مخلص ہونا چاہئیے۔ایسا نہیں کہ جو ریفنڈ مانگے اس کو دے دیں۔جو ری فنڈ نہ مانگے وہ جیب میں ڈال لیں۔ریاست کو ہر شہری کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ریاست کو لوگوں کی جیبوں سے اس طرح پیسہ نہیں نکالنا چاہئیے۔دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسسار کیا کہ کتنے لوگ ہیں جو ایڈوانس ٹیکس کا ری فنڈ مانگتے ہیں؟۔

(جاری ہے)

لگتا ہے ریاست نے ہر شہری کو قابل ٹیکس سمجھ لیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست سمجھتی ہے کہ شہری خود نشاندہی کرے کہ وہ ٹیکس پئیر ہے کہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ موبائل فون ٹیکس کے نام پر عوام کی جیبوں سے بہت بڑی رقم نکالی گئی۔اس کیس میں ہائیکورٹ سے اپیل آئی تھی۔ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کب کہاں کتنا ٹیکس لگانا ہے؟۔دیکھنا ہے حکومت نے اس قانون کا صحیح نفاذ کیا ہے؟۔

یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں یہ قانون غلط تو نہیں۔اس قانون کی وجہ سے بہت رقم عوام کی جیبوں سے نکالی گئی۔ کیس کی سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔ ۔واضح رہے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تھی۔سپریم کورٹ نے موبائل کارڈز پر سروس چارجز ود ہولڈنگ ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کو معطل کر دیا تھا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں