200 فیصد امپورٹ ڈیوٹی کی وجہ سے بھارت کو کھجور کی برآمد بند ہوئی ہے‘ پارلیمانی سیکرٹری تجارت شاندانہ گلزار

بدھ 24 اپریل 2019 15:06

200 فیصد امپورٹ ڈیوٹی کی وجہ سے بھارت کو کھجور کی برآمد بند ہوئی ہے‘ پارلیمانی سیکرٹری تجارت شاندانہ گلزار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اپریل2019ء) پارلیمانی سیکرٹری تجارت شاندانہ گلزار نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے 200 فیصد امپورٹ ڈیوٹی کی وجہ سے بھارت کو کھجور کی برآمد بند ہوئی ہے‘ پاکستان میں تازہ کھجور کیلئے پراسیسنگ یونٹ نہیں ہے‘ کھجور کی برآمد کے لئے متبادل اقدامات کئے جارہے ہیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں نفیسہ شاہ‘ شگفتہ جمانی اور دیگر کے توجہ مبذول نوٹس پر پارلیمانی سیکرٹری شاندانہ گلزار نے کہا کہ پاکستان کی 97 فیصد کھجور بھارت کو برآمد ہو رہی ہے‘ پلوامہ حملہ کے بعد بھارت نے 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی‘ بھارت کے ساتھ تجارت میں کمی آئی ہے۔

بلوچیستان اور سندھ میں تازہ کھجور کی پراسیسنگ سہولت نہیں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر اختیارات منتقل ہوئے لیکن اب تک پراسیسنگ کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

(جاری ہے)

بھارتی امپورٹر نے درآمد بند کی ہے۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ کھجور برآمد کرنے کے حوالے سے پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ اگر بھارت کی طرف سے پابندی لگی ہے تو متبادل کیا اقدامات کئے گئے ہیں، اگر صورتحال کا ازالہ نہ کیا گیا تو کم سے کم آٹھ ارب کا نقصان ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں سعودی عرب اور ایران سے کھجور کی درآمد کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے کیا جوابی اقدامات کئے گئے ہیں۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ پچھلے 11 سالوں میں تازہ کھجوروں کے لئے پراسیسنگ سہولت کیوں فراہم نہیں کی گئی۔ ہم نے مراکش‘ فرانس‘ انڈونیشیا سمیت چھ ممالک میں بات کی ہے۔ ہم جوابی اقدامات تب رتے اگر ہماری استعداد ہوتی۔

میں الزامات نہیں لگاتی لیکن پاکستان میں صنعتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ موجود ہے اور ہم اس کو حل کر رہے ہیں۔ جولائی 2018ء میں ڈیوٹی ڈرا بیک کی سہولت ہم نے فراہم کی ہے۔ ٹڈاپ سے بھی ہم نے بات کی ہے۔ حکومت تجارت کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک میں کھجوروں کی پراسیسنگ پلانٹس میں امداد شامل ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ٹیرف لسٹ میں جتنی آئٹمز ہیں حکومت تمام شعبوں کو دیکھے گی۔ ہمیں ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی کے راستے بلواسطہ تجارت بھی ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ مصنوعات کی سٹاکنگ وفاقی حکومت ایک حد تک کر سکتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔

سپیکر نے زراعت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے کمیٹی بھی بنائی ہے۔ اس کمیٹی میں صوبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جاوید علی شاہ جیلانی کے سوال پر شاندانہ گلزار نے کہا کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس ملا تھا۔ پاکستان نے تمام ضوابط پورے کئے۔ جنوری 2014ء سے ہمیں اجازت دی تھی لیکن ہم پچاس کے قریب ٹیرف لائن سے فائدہ نہیں اٹھا سکے کیونکہ سپلائی کی سطح پر ہم کام نہیں کر سکے۔

ایشو یہ ہے کہ صوبے مرکز سے اس حوالے سے بات نہیں کر رہے۔ شاہدہ رحمانی کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ پاکستان مارکیٹ اکانومی ہے۔ حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کو دیکھتی ہے جن میں کسان‘ تاجر‘ امپورٹرز سب شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کھجور کی درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتے،کھجور کے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے لیکن اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ماضی میں زراعت سے متعلق صنعتوں پر توجہ نہیں دی گئی ہے، موجودہ حکومت اس شعبہ کی صنعتوں پر توجہ دے رہی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں