درامدی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے سے ڈالر سستا نہیں ہو گا

عوام اگر درآمد شدہ مصنوعات کے استعمال کا بائیکاٹ کر بھی لیں تو فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک حکومت معاشی پالیسیوں کی درستگی کا نہ سوچے،پاکستان بڑی تعداد میں زرعی مشینری اور وافر مقدار میں جان بچانے والی ادویات بیرون ممالک سے خریدتا ہے،معروف ماہرِ معاشیات

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ بدھ 22 مئی 2019 00:14

درامدی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے سے ڈالر سستا نہیں ہو گا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21مئی2019) معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شجاعت مبارک نے بتایا ہے کہ درامدی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے سے ڈالر سستا نہیں ہو گا انہوں نے کہا ہے کہ روزمرہ کی اشیا کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہے پاکستان بڑی تعداد میں زرعی مشینری اور انسولین سمیت وافر مقدار میں جان بچانے والی ادویات بیرون ممالک سے خریدتا ہے اس لیے عوام اگر درآمد شدہ مصنوعات کے استعمال کا بائیکاٹ کر بھی لیں تو فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک حکومت معاشی پالیسیوں کی درستگی کا نہ سوچے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہ آنے والے بجٹ تک ڈالر کی قیمت 156روپے پر پہنچ جائے گی اور آئی ایم ایف قرضے کی پہلی قسط ملنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ رک جائے گا، لیکن یہ فل سٹاپ عارضی ہو گا اور دسمبر 2019تک ڈالر کی قیمت 165سے 175روپے تک پہنچ جائے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ روپے کی حالت اس نہج تک پہنچنے کی کئی وجوہات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ گزشتہ حکومت کی جانب سے مصنوعی طریقہ کار سے ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکنا ہے۔

ڈاکٹر شجاعت مبارک نے کہا ہے کہ ہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سی پیک بھی ہے۔ انہوں نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ساری توجہ سی پیکپر ہونے کے باعث حکومت نے دوسری تمام خرید وفروخت کو نظر انداز کر دیا اس لیے ڈالرکی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے البتہ موجودہ صورتحال میں ملکی درآمدات میں کمی ضرور آئی ہے مگر ماضی میں ملک میں آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت زیادہ درآمدات کا رجحان رہا ہے جس کی اس وقت ضرورت بھی تھی۔

لیکن اس کے بعد معیشت کی کمر ابھی تک سیدھی نہیں ہو پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی ساری توجہ CPEC منصوبے پر ہے جس کے باعث باقی اہم خریدو فروخت نظر انداز ہوئی ہے۔ ان کے مطابق تیسری وجہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے بہت زیادہ قرضہ چکانا ہے جس پر حکومت نے مزید قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام بھی معیشت کے حق میں نہیں گیا اور ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے کے خوف سے عوام نے ڈالر خریدنا شروع کردیا ہے جس سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ کاروباری ہفتے کے دوسرے دن میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں