آئین پاکستان کا حلف اٹھانے والے سکیورٹی فورسز سمیت آئینی اور ریاستی اداروں کا احترام کریں‘

ترقی اور خوشحالی کے سفر میں رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کیا جائے‘ یہ وقت زخموں پر مرہم چھڑکنے کا نہیں بلکہ مرہم رکھنے کا ہے‘ محسن داوڑ این ڈی ایس کے عہدیدار امتیاز وزیر کے ساتھ اپنے تعلق کی وضاحت کریں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

پیر 27 مئی 2019 17:09

آئین پاکستان کا حلف اٹھانے والے سکیورٹی فورسز سمیت آئینی اور ریاستی اداروں کا احترام کریں‘
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مئی2019ء) وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کا حلف اٹھانے والے سکیورٹی فورسز سمیت آئینی اور ریاستی اداروں کا احترام کریں‘ ترقی اور خوشحالی کے سفر میں رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کیا جائے‘ یہ وقت زخموں پر مرہم چھڑکنے کا نہیں بلکہ مرہم رکھنے کا ہے‘ محسن داوڑ این ڈی ایس کے عہدیدار امتیاز وزیر کے ساتھ اپنے تعلق کی وضاحت کریں۔

پیر کو قومی اسمبلی میں خواجہ محمد آصف کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ کل جو واقعہ ہوا ہے کہ اس کی تمام ویڈیو فوٹیجز موجود ہیں کہ کس طرح فوج کی چوکی پر حملہ کیا گیا‘ وہاں پر کس طرح کے بیانات دیئے گئے اور اس ایوان کے رکن نے کس طرح اشتعال دلایا‘ وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔

(جاری ہے)

وزیرستان میں دو تین دن سے دھرنا جاری تھا۔

پرامن ماحول تھا‘ مطالبات پورے ہونے جارہے تھے اور معاملہ بھی تقریباً حل ہو رہا تھا۔ ایسے میں اسلام آباد سے ٹیلی فون جاتا ہے کہ دھرنا ختم نہ کیا جائے۔ اس کے بعد چوکی پر حملہ ہوتا ہے اور فوجی جوان سمیت عام لوگ بھی جاں بحق ہوتے ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ دو ہفتے پہلے وزیراعلیٰ اور ہم سب وزیرستان گئے تھے تاکہ ان کے ایشوز حل ہوں۔ ان دنوں بھی محسن داوڑ کا دھرنا جاری تھا۔

میں نے سوال کیا کہ ہم نے 15 سال دہشتگردی کی جنگ برداشت کی ہے۔ اس جنگ میں ستر ہزار لوگ شہید ہوئے جن میں 7 ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ خود میرا گھر بھی تباہ ہوا۔ متاثرہ علاقوں میں نہ انفراسٹرکچر تھا اور نہ کوئی دوسری سہولت تھی۔ آج جب ترقی کا سفر شروع ہوا ہے تو ماضی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی بجائے زخموں پر مرہم رکھ کر ترقی اور خوشحالی کے سفر کو آگے بڑھا دینا چاہیے۔

وزیرستان کو قندوز اور قندہار بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو معلوم ہے کہ 2009ء میں جب آپریشن ہوا تو کس کی حکومت تھی اور 2014ء میں جب آپریشن ہوا تو اس وقت کس کی حکومت تھی۔ دونوں ادوار میں فوج کو علاقہ دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے لایا گیا۔ فوج اور سکیورٹی اداروں نے اپنا کام کیا اس کے بعد سویلین حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ وہاں پر تعمیر نو و بحالی کا عمل آگے بڑھاتے لیکن ماضی کی دونوں حکومتیں اس میں ناکام ہوئیں۔

مراد سعید نے کہا کہ یہ لوگ سوات پر پاکستان کا پرچم لہرانے اور آپریشن ضرب عضب کا کریڈٹ تو لیتے ہیں لیکن اس آپریشن کی کامیابی کے بعد لوگوں کی بحالی کی ذمہ داری حکومت کی بنتی تھی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ نقیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں شہادت کے بعد بنی اور اس کا سب سے بڑا مطالبہ اس واقعہ میں ملوث ملزم کو سزا دلوانا تھا۔

قوم کو بتایا جائے کہ رائو انوار کس کا بہادر بچہ تھا۔ 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ آپ نے آپریشن میں کامیابی کے بعد ترقی و خوشحالی کے لئے اقدامات کیوں نہ کئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ڈرون حملے ہو رہے تھے اور ہم احتجاج کرتے تھے تو یہی محسن داوڑ ڈرون حملوں کی حمایت کے لئے سب سے آگے تھے۔ ہم جب نیٹو سپلائی لائن بند کرتے تو یہ اس کی حمایت میں آگے آتے۔

اے پی ایس کا سانحہ جب ہوا تو تمام جماعتوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور دہشتگردی کی سوچ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اے پی ایس کے بعد چارسدہ یونیورسٹی میں حملہ ہوا اس میں معلوم ہوا کہ حملے میں افغانستان کے شہری اور افغانستان کی سمیں استعمال ہوئی ہیں۔ بارڈر پر فنسنگ کے لئے جب ہم نے قرارداد ایوان میں پیش کرنے کی کوشش کی تو محسن داوڑ اور محمود خان اچکزئی نے اس کی مخالفت کی۔

ہمیں را اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا ہے۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں۔ مراد سعید نے کہا کہ وہ خود آئی ڈی پی رہے ہیں۔ ہم نے اگر اپنے گھروں کو چھوڑا تھا تو یہ حکومتوں کی غلط پالیسی کے نتیجے میں چھوڑا۔ نہ وہاں سکول‘ کالج اور نہ یونیورسٹی بنی ہے۔ اب جب ترقی و خوشحالی کا سفر شروع ہوا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف دشمن کے طیارے ہم پر بمباری کر رہے تھے تو دوسری طرف ہمیں نئے بیانیے سننے کو مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بی ایل اے کو کون سپورٹ کر رہا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ ہم جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں‘ اس ایوان کے تمام اراکین نے آئین کے تحت حلف لیا ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر نے بھی اسی آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے۔

پاکستان کا آئین ہمیں اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی کا حق دیتا ہے لیکن اس کے لئے حدود و قیود موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں دس سالہ بچی فرشتہ کے قتل کا المناک واقعہ پیش آیا۔ یہ ظلم ہوا ہے اور اس کی تحقیقات جاری ہے۔ کارروائی ہو رہی ہے اس میں بھی فوج کو گھسیٹا گیا۔ انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹیں سوات میں بھی بنی تھیں جن میں بتدریج کمی آئی ہے۔

سوات سمیت قبائلی علاقہ جات میں جتنے گھر گرے ہیں، دکانیں تباہ ہوئی ہیں اس کے نقصان کے ازالے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے 22 ارب روپے کا پیکج دیا ہے۔ انہوں نے اس دوران پشتو زبان میں بھی خطاب کیا اور کہا کہ میں پختون ہوں اس ایوان کے صدر نشین بھی پختون ہیں۔ آپ نے خود دیکھا ہے کہ وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے سب سے پہلے ہم نے مخالفت کی تھی۔

آج اللہ نے پختونوں کو وہ لیڈر دیا ہے جو پختونوں کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔ وہ پختونوں کے تمام علاقوں میں گئے ہیں اور ان کو گلے سے لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ پرانے زخموں پر نمک چھڑکا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ زخموں پر مرہم لگا کر آگے کی طرف جایا جائے۔ آج جب امن و ترقی کا سفر شروع ہوا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ جب طاہر داوڑ کی شہادت ہوئی تو ان کی میت این ڈی ایس کے منتظم امتیاز وزیر نے صرف محسن داوڑ کے حوالے کرنے کی بات کیوں کی۔ ہمارا دشمن ہماری مشرقی و مغربی سرحدوں پر کھڑا ہے۔ میں محسن داوڑ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ امتیاز وزیر کا آپ سے کیا تعلق ہے۔ افغانستان میں جو قونصل خانے موجود ہیں ان سے آپ کو سپورٹ کس طرح مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے پاکستان اور ایک قوم بنائی۔

لیکن سیاستدانوں نے اسے سندھی‘ پنجابی‘ بلوچ میں تقسیم کیا۔ قومیت کا نام لے کر استحصال کیا جارہا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 90 کی خلاف ورزی ہے۔ ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ لے رہے ہیں تو اس کریڈٹ کے ساتھ آپ کی جو ذمہ داری تھی وہ آپ نے پوری کیوں نہیں کی۔ 80 فیصد قبائلی عوام آپ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے واپس نہیں جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اور پشتون علاقوں میں شناختی کارڈز بلاک ہوئے تو ہماری کوششوں سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب شناختی کارڈز دوبارہ بحال ہوئے۔ اس میں سے 25 ہزار آج بھی بند ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے افغانیوں کے 25 ہزار جعلی شناختی کارڈ بنائے تھے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں