جاسوسوں کو قونصلر رسائی نہ ملنے کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کرا لیا جاتا تو آج بھارت کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالت انصاف میں نہیں لے جاسکتا تھا‘

ایف اے ٹی ایف میں سعودی عرب سمیت 39 ممالک شامل ہیں تاہم منی لانڈرنگ کے ذمہ دار سابق حکمرانوں نے پاکستان کو اس میں شامل نہیں ہونے دیا‘ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کاقومی اسمبلی میںبجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 25 جون 2019 18:01

جاسوسوں کو قونصلر رسائی نہ ملنے کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کرا لیا جاتا تو آج بھارت کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالت انصاف میں نہیں لے جاسکتا تھا‘
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2019ء) وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ 2008ء میں جاسوسوں کو قونصلر رسائی نہ ملنے کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اگر اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کرا لیا جاتا تو آج بھارت کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالت انصاف میں نہیں لے جاسکتا تھا‘ ایف اے ٹی ایف میں سعودی عرب سمیت 39 ممالک شامل ہیں تاہم منی لانڈرنگ کے ذمہ دار سابق حکمرانوں نے پاکستان کو اس میں شامل نہیں ہونے دیا‘ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

منگل کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہمارے لیڈروں کی جانب سے حکمرانی اور این آر او کے لئے امریکہ کے پائوں پڑنے کی تحقیقات کرائی جائیں۔

(جاری ہے)

2008ء میں ہماری حکومت بھارت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کرا دیتے تو بھارتی درخواست آئی سی جے میں نہیں جاسکتی تھی۔

جب بھارت اس بنیاد پر آئی سی جے میں گیا تو ہم نے وہاں موقف اختیار کیا کہ ہمارا دوطرفہ معاہدہ ہوا ہے کہ جاسوس کو قونصلر رسائی نہیں مل سکتی تاہم اقوام متحدہ نے اس کو تسلیم نہیں کیا بعد کی حکومت نے یہ معاہدہ رجسٹرڈ کرایا۔ اس بارے میں تحقیقات کی جائیں۔ اس سے ملک کا نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف پر یہاں بات ہوئی ہے یہ بہت دلچسپ کیس ہے۔

گزشتہ حکمرانوں کی منی لانڈرنگ چھپانے سے یہ معاملہ بنا۔ منی لانڈرنگ پر 1989ء میں یہ فورم بنا۔ 2010ء تک ہم کسی بلیک یا گرے لسٹ میں نہیں تھے۔ ہم اس کے ممبر بن سکتے تھے لیکن ہم نے درخواست ہی نہیں دی۔ پی پی کی حکومت تک ہم بلیک لسٹ تک پہنچ چکے تھے۔ اگر پہلے کرتے تو حکمرانوں کی منی لانڈرنگ پکڑی جاتی۔ 2015ء سے 2018ء کے دوران ہم اس لسٹ سے نکل گئے تھے تاہم پھر بھی اس کی ممبر شپ کی درخواست نہیں دی گئی۔ اگر ہم اس کے رکن ہوتے تو اس فہرست میں نہ ہوتے۔ یہ عصبیت ہماری گزشتہ لیڈر شپ لائی۔ اس بارے میں بیورو کریٹ اور لیڈروں کا احتساب ہونا چاہیے۔ سعودی عرب سمیت 39 ممبران ہیں لیکن اس میں ہم شامل نہیں۔ اس کا ایجنڈا منی لانڈرنگ تھا۔ دہشتگردی بعد میں شامل ہوئی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں