وزیراعظم عمران خان تین کام کریں احتساب‘ احتساب اور احتساب‘ اٹھارہویں ترمیم 1973ء کے آئین کی اصل شکل میں بحالی اور صوبائی خودمختاری کے لئے تھی تاہم نہ تو 1973ء کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال ہوا اور نہ ہی صوبوں کو خودمختاری ملی‘

یہ ترمیم صرف چند خاندانوں کے مفاد میں تھی‘ اسی طرح میثاق جمہوریت بھی چند خاندانوں کے لئے تھا‘ اب اگر میثاق معیشت کرنا ہے تو پاکستان کے عوام کے لئے کیا جائے‘ چند خاندانوں کے لئے یہ نہیں ہونا چاہیے‘ سندھ میں اضلاع کی سطح پر بھی ٹیلی میٹری سسٹم رائج کیا جائے وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کے دوران اظہارخیال

منگل 25 جون 2019 19:51

وزیراعظم عمران خان تین کام کریں احتساب‘ احتساب اور احتساب‘ اٹھارہویں ترمیم 1973ء کے آئین کی اصل شکل میں بحالی اور صوبائی خودمختاری کے لئے تھی تاہم نہ تو 1973ء کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال ہوا اور نہ ہی صوبوں کو خودمختاری ملی‘
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2019ء) وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان تین کام کریں احتساب‘ احتساب اور احتساب‘ اٹھارہویں ترمیم 1973ء کے آئین کو اپنی اصل شکل میں بحالی اور صوبائی خودمختاری کے لئے تھی تاہم نہ تو 1973ء کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال ہوا اور نہ ہی صوبوں کو خودمختاری ملی‘ یہ ترمیم صرف چند خاندانوں کے مفاد میں تھی‘ اسی طرح میثاق جمہوریت بھی چند خاندانوں کے لئے تھا‘ اب اگر میثاق معیشت کرنا ہے تو پاکستان کے عوام کے لئے کیا جائے‘ چند خاندانوں کے لئے یہ نہیں ہونا چاہیے‘ سندھ میں اضلاع کی سطح پر بھی ٹیلی میٹری سسٹم رائج کیا جائے۔

منگل کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ جب سرمایہ کاری نہ آرہی ہو‘ بجلی کا خسارہ‘ گیس کا خسارہ‘ سرحدوں کی صورتحال خراب‘ بجٹ خسارہ‘ تجارتی خسارہ‘ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہو تو بجٹ مشکل ہی ہوگا‘ ایف اے ٹی ایف کی تلوار گردن پر ہو‘ سی پیک عالمی ممالک کو کھٹک رہاہو‘ دہشت گردی کے چیلنج سمیت دیگر مشکلات کے باوجود ہم مشکل بجٹ کے ساتھ آئے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہاں اٹھارہویں ترمیم کی بار بار بات کی جاتی ہے۔ 2009ء میں بطور سپیکر میں نے آئینی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کا مقصد 1973ء کے آئین کی بحالی اور صوبائی خودمختاری تھا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی یقینی بنائی‘ 27 رکنی کمیٹی میں سے چھ ممبران بلوچستان سے تھے۔ ہمارے دفتر نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ نہ تو 1973ء کا آئین اصل شکل میں بحال ہوا اور نہ ہی احساس محرومی دور ہوا۔

اس کے تحت این ایف سی ایوارڈ ہوا جس میں پنجاب کا 51.74 فیصد‘ سندھ 24.55 ‘ کے پی کے 14.62‘ بلوچستان کا حصہ 9.09 فیصد آیا۔ اس کے تحت زراعت‘ سپورٹس‘ سیاحت سمیت دیگر شعبہ جات صوبوں کے پاس گئے تاہم ان شعبہ جات کی حالت خراب ہے۔ 60 فیصد حصہ صوبے لیتے رہے لیکن ترقی منفی رہی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پانی کی انصاف سے تقسیم نہیں ہو رہی ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 158واں ہے جو شرمناک ہے۔

سندھ میں تعلیم کی صورتحال افسوسناک ہے۔ واٹر کمیشن کی رپورٹ اس ایوان میں لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جمہور کو مار کر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ اٹھارہویں ترمیم چند خاندانوں کے مفاد کے لئے نہیں بنی تھی۔ اس کا مقصد جمہور تک اس کے فوائد پہنچانا تھے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم رول بیک ہو رہی ہے انہوں نے اس پر عمل ہی کب کیا ہے۔

سندھ کو 616 ارب روپے کا حصہ ملا۔ سندھ حکومت اور اسمبلی غیر منتخب لوگ چلا رہے ہیں۔ یہ سندھ پر قابض ہیں۔ کرپشن جمہوریت کو مضبوط کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ نو سال کا حساب لگایا جائے کہ کس صوبے کو کتنا حصہ ملا اور اس کا احتساب ضروری ہے۔ احتساب کے بغیر جمہوریت فروغ نہیں پا رہی۔ سندھ میں لوگ اللہ کے سہارے ہی جی رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو شہید نے دستخط کئے۔

اس پر سندھ میں عمل نہیں ہو رہا۔ سندھ میں پی اے سی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو نہیں دی جارہی اسے میثاق منافقت کہتے ہیں جو چند خاندانوں کے لئے تھی۔ میثاق معیشت ضرور ہو لیکن یہ صرف چند خاندانوں کے نام پر نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے اثرات عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لئے عوامی مسائل پر بات کریں‘ شخصیات پر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا حلقہ پسماندگی میں سب سے آگے ہے‘ وہاں پانی نہیں‘ چاول کی فضل کی بجائی کے لئے پانی نہیں مل رہا۔

ان سے انتقام لیا جارہا ہے۔ وہاں بھوک ہے‘ بیماری اور پیاس ہے۔ صوبہ سندھ کا فنانس کمیشن بنایا جائے۔ مفاہمت کی بات ہوتی ہے وہ عمل عوام کے لئے کرنا چاہیے۔ صوبائی بجٹ کو فنانس کمیشن کے مطابق بنایا جائے اور بدین کو پسماندگی کے اعتبار سے حصہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ٹیکس پر سود کی شرح کم کی جائے۔ جی آئی ڈی کا خاتمہ کیا جائے۔ ٹیلی میٹری سسٹم صوبوں کے درمیان لگایا جائے۔ چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کے ثمرات صوبوں کو بھی ملنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم احتساب‘ احتساب اور احتساب کریں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں