جج ارشد ملک کا مبینہ ویڈیو اسکینڈل، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تجاویز مانگ لیں

ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو پھر وہ ازخود نوٹس نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 16 جولائی 2019 11:15

جج ارشد ملک کا مبینہ ویڈیو اسکینڈل، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تجاویز مانگ لیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16 جولائی 2019ء) : احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو اسکینڈل سے متعلق دائر درخواستوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق ویڈیو اسکینڈل کی انکوائری کے لیے دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل ہیں عدالت میں سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ویڈیو لیکس اسکینڈل کے ذریعےعدلیہ پر سوالات اُٹھائے گئے، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے حوالے سے ایک اہم اور حساس معاملہ ہے، لہٰذا عدالت اس معاملے کی تحقیقات کروا کر ذمہ داران کا تعین کرے۔

(جاری ہے)

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کا ہے، مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں کچھ الزامات لگائے گئے، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ وکیل نے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں، اس کی انکوائری ہونی چاہئیے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں سچ کی تلاش چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا نے ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہا، لہٰذا ایک کمیشن بنایا جائے، بے شک یہ کمیشن ایک رکنی ہی کیوں نہ ہو۔ وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کا سربراہ کون ہو؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جج کمیشن کے سربراہ ہو، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ایسا کلچر بن گیا ہے کہ ایک کے خراب ہونے پر سب کو ایسا سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سارے جج ایسے ہیں، سارے سیاستدان ایسے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتائیں کہ کمیشن کیا دیکھے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن سچائی کو دیکھے کہ اگر الزام ثابت ہو تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہئیے ۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج نے بیان حلفی کے ذریعے کچھ حقائق بیان کیے، وزیر اعظم عمران خان نے بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ عدلیہ ویڈیو کے معاملے پر نوٹس لینا چاہئیے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیر جماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ عدلیہ اس اسکینڈل کی تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے بھی یہی مطالبہ دہرایا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے، ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو پھر وہ ازخود نوٹس نہیں ہوا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جب سے بنی نوع انسان کی پیدائش ہوئی ہے، سچ کی تلاش جاری ہے، اگر یہ سچ تلاش کرنا ہے تو پھر جن ججز نے مرکزی اپیل سنی ہے وہ کیا کریں گے۔ سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا تو ہائی کورٹ پابند ہو جائے گی، پھر ہائی کورٹ کیسے کارروائی کرے گی؟ اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ کمیشن کی فائنڈنگ پر ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو اسی طرف لے کر آنا چاہ رہا تھا، کمیشن کی فائنڈنگ پر کوئی عدالت نوٹس نہیں لے سکتی۔

اس دوران درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دینا شروع کیے۔ اکرام چوہدری نے دلائل دیے کہ مریم نواز کا بیان ہے کہ نواز شریف کے خلاف دباؤ پر فیصلہ کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں نواز شریف کا بیان اور جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی پڑھا۔ وکیل نے کہا کہ کسی ادارے پر سے اعتبار اٹھنا بذات خود بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، ان جج کے بیان کو انتہائی احتیاط سے دیکھنا چاہئیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے جج کو کرسی ماری یہ بھی غیرمعمولی معاملہ ہے لیکن ایک جج نے وکیل کو پیپرویٹ مارا تو کیا یہ غیر معمولی معاملہ نہیں؟۔ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر عدلیہ سے متعلق بیانات جاری رہے تو پھر ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے میں دباؤ ہوگا۔ سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلا نقطہ ادارے کا معاملہ ہیں، جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، ہر روز معاملے سے متعلق معلومات آرہی ہیں، اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تجویز چاہتے ہیں جس سے جذبات کے بغیر فیصلہ کیا جاسکے، اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرے۔ اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جو الزامات جج پر لگائے گئے ہیں، اس معاملے کو کون دیکھے گا، کیا وہ جج خود دیکھے گا جس پر الزامات ہیں۔ سماعت کے دوران وکیل نے استدعا کی فوجداری اور سائبر قوانین کے تحت عدلیہ معاملے کی تحقیقات کروائے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ کے حکم سے ہوتی ہیں۔

وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ بیانات اور پھر جوابی بیانات کی وجہ سے عدلیہ کی تضحیک ہورہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اسی وجہ سے اس مقدمے کو سن رہے ہیں۔ بعد ازاں دونوں درخواست گزاروں کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔ وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو تیسرے درخواست گزار طارق اسد نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ ویڈیو کو فرانزک کے ذریعے جانچا جائے، جج کبھی جاتی امرا جارہے ہیں تو کبھی عمرے پر ملاقاتیں کررہے ہیں۔

طارق اسد نے کہا کہ جج اتنے اہم مقدمات سننے کے باوجود ملاقاتیں کرتے رہے، حکومت اور ایجنسیاں کہاں تھیں، یہ مقدمہ عدلیہ کی خود مختاری سے متعلق ہے، کچھ اور اس ادارے بھی دخل اندازی کر رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ادارے کی دخل اندازی کی بات کر رہے ہیں ، ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ادارے دخل دیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ ادارے دخل اندازی کر رہے ہیں لیکن اپنا کام نہیں کر رہے ہیں۔

وکیل نے مزید کہا کہ ارشد ملک کا طریقہ کار یہ بات ثابت کرتا ہے کہ وہ بدعنوان سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، ایک غیر ملکی فیصلے میں قرار دیا گیا جج کے تعصب پر دوبارہ ٹرائل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر جس طرح کے ٹاک شوز ہوتے ہیں میں کمرے سے باہر چلا جاتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمرہ چھوڑنے کے بجائے ایک بٹن ہوتا ہے اسے دبا کر ٹی وی بند کر دیا کریں۔

چیف جسٹس کے اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں موجود لوگوں نے قہقہہ لگایا ۔ سماعت کے دوران درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، اس پر عدالت نے کہا کہ حکومت کو بھی کمیشن بنانے کا اختیار ہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ کمیشن بنائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احتساب عدالت کے جج لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت تھے، وفاقی حکومت نے ڈیپوٹیشن پر ان کا تقرر کیا، تاہم یہ ویڈیو کی ساخت کا معاملہ ہے فورم کو کونسا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری باتیں عوامی باتیں ہیں، کسی کی نجی ویڈیو کیسے بنائیں، کیسے عوام کے سامنے آئی اس کو دیکھنا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب سب کچھ سپریم کورٹ کرتی ہے تو اعتراض ہوتا ہے لیکن جب ہم ہاتھ کھینچتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کرے، ہم نے فیصلہ کرنا ہے معاملے میں کہاں ہاتھ ڈالنا ہے اور کہاں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جج کے مس کنڈکٹ (غلطی) کو بھی جاننا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ کہاں مداخلت کرنی ہے، عنقریب ہم کچھ چیزیں طے کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے سپریم کورٹ نے اس معاملے پر اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرتے ہوئے متعلقہ کیس کی مزید سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ لیک شدہ ویڈیو کی انکوائری کا حکم دے اور جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

درخواستگزاروں کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ درخواستیں اشتیاق احمد مرزا، سہیل اختر اور ایڈوکیٹ طارق اسد نے دائر کی تھیں جس میں وفاقی حکومت، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق کو فریق بنایا گیا۔ درخواستوں میں جج ارشد ملک، ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ اور پیمرا کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو جاری کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ ن نے جج ارشد ملک پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیسز کے فیصلے دباؤ میں آ کر دئے جس پر جج ارشد ملک نے اپنا بیان حلفی جمع کروایا جس میں شریف خاندان کی جانب سے رشوت کی پیشکش سمیت دیگر اہم انکشافات کیے گئے تھے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں