سی ڈی اے میں 122افسران غیر قانونی بھرتیوں سے قومی خزانے پر سالانہ 1ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالے جانے کا انکشاف

ایف آئی اے سمیت محکمانہ انکوائریوں کے باوجودمتعدد عارضی بھرتی کئے گئے افراد کومستقل بھی کر دیا گیا،ذرائع

جمعرات 19 ستمبر 2019 23:17

.اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 ستمبر2019ء) سی ڈی اے میں گریڈ 16۔17 اور 18 میں براہ راست122افسران کو خلاف قانون بھرتیاں کئے جانے سے قومی خزانے کو سالانہ 1ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالے جانے کا انکشاف ہوا ہے ایف آئی اے سمیت محکمانہ انکوائریوں کے باوجودمتعدد عارضی بھرتی کئے گئے افراد کومستقل بھی کر دیا گیاذرائع نے یہ بھی بتایا کہ محکمانہ انکوائریوں کے دوران منہ مانگی رشوت نہ دینے پر کچھ افسران کوملازمت سے برطرف بھی کیا گیااس ضمن میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کچھ افسران کو عدالت میں ادارے کی طرف سے فائل کردہ آئی سی اے درخواست واپس لینے کے بعد بھی ریگولر کیا گیا ہے جبکہ جن ملازمین کو رشوت نہ ملنے پر فارغ کیا گیا ان پر کارگردگی بہتر نہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع نے بتایا کہ محکمانہ انکوائریوں اور پھر اڈٹ رپورٹ میں نشاندہی اور سفارشات پر بھی خلاف قانون بھرتی افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے سی ڈی اے انتظامیہ/ایم سی آئی انتظامیہ ملی بھگت اور اقربا پروری کی بنا پر جعلسازوں پر تا حال مہربان ہے۔ذرائع کے مطابق سال 2011۔12 میں ابتدائی طور پر بھرتی ہونے والے افسران میں محمد برہان عامر۔

سردار رضاعباس۔صنم خان۔عنبرین عارف۔صائقہ طارق۔منال اجمل۔محمد علی حسن۔محسن عزیز۔حافظ عمیرجاوید۔یاسرعرفات۔منیبہ اختر۔کاشف انور۔عقیل احمد سندھو۔عثمان رشید۔محمد مدثراحمد۔محمد عقیل زرداری۔حافظ توقیراحمد۔محمد عرفان خان۔ذوالفقارعلی۔سیمہ جمال۔فہیم خان۔ملک محمد قسیم۔وقاص سعید۔شیخ ذیشان۔محمدندیم خان۔عاصم اقبال۔تیمورچغتائی۔

معصومہ سید۔طفیل محمود۔محمد احسان منیر۔دلشاد روبی۔محمدعاطف یاسین۔محمد احسن۔سعدیہ سروت۔ظفرحیات۔احسن علی ملک۔نہریزہ اخلاق۔شیخ فیضان۔وسیم اللہ کیانی۔مجاہدحسین۔مہرین چانڈیو۔فرحان سکندر۔راحیل احمد جونیجو۔علی سید کمال۔حافظ ارحم نیبل۔بینش زہرہ۔ارشد افریدی ناصرنعیم وغیرہ شامل ہیں اس حوالے سی25 جولائی 2016 کو ڈی جی سروسز کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ دی۔

کمیٹی نے تمام کیسوں میں قوانین کی سخت خلاف ورزیوںکی نشاندہی کی ہے کمیٹی نے تصدیق کی کہ جعلسازی کے طور پر بھرتی کئے گئے ملازمین کو نہ صرف صوبائی کوٹہ اوربغیر اشتہار بھرتی کیا گیا بلکہ جن اسامیوں پر سلیکشن کی گئی وہ تجربہ اور تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے علاوہ ان آسامیوں کے معیار پر بھی پورا نہیں اتر تے یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں جعلی ملازمین کو بھرتی کر کے قومی خزانے پر بوجھ ڈال دیا گیا ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ جعلسازی کے لئے بنائی گئی کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق50 افسران کی فہرست میں سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن نشاندہی کے باوجود 7سالوں میں بھی ان غیر قانونی بھرتیوں پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی جبکہ مکمل انکوائری رپورٹ ہی سردخانے کی نذر کی جا چکی ہے

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں