مسلم لیگ ن نے مولانا اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو خوش رکھا ہوا ہے

کنفیوژن برقرار رکھنا بڑے میاں صاحب کی طے شدہ حکمت عملی ہو سکتی ہے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 15 اکتوبر 2019 13:57

مسلم لیگ ن نے مولانا اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو خوش رکھا ہوا ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 اکتوبر 2019ء) : مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی کی خبریں تو بہت منظر عام پر آئیں لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا جس سے مسلم لیگ ن انتشار کا شکار ہو یا پھر شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور پارٹی قائد نواز شریف اور مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ اس حوالے سے کالم نگار ارشاد احمد عارف نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ مسلم لیگ ن میں دھڑے بازی کا آغاز عام انتخابات سے قبل ہوا۔

میاں نواز شریف کی آمد پر استقبالیہ جلوس کا راستے میں گم ہو جانا اور میاں صاحب کا بصد حسرت ویاس برادر خورد کی راہ تکنا اسی دھڑے بندی کا مظہر تھا۔ کنفیوژن برقرار رکھنا بڑے میاں صاحب کی طے شدہ حکمت عملی ہو سکتی ہے اور دو دھڑوں کا تاثر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، تاکہ کارکن اورمولانا دونوں خوش رہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کے دروازے بھی بند نہ ہوں۔

(جاری ہے)

شہباز صاحب اپنا کام جاری رکھیں اور فیصلہ سازوں سے کہہ سکیں کہ آپ نے میری حوصلہ افزائی نہ کی تو میاں صاحب کارکنوں کو مولانا کا ساتھ دینے کی ہدایت کریں گے اور پھر جوہو ، سو ہو، میرا ذمہ توش پوش۔ جبکہ سخت گیر قیادت اور کارکنوں کو یہ پیغام ملتا رہے کہ قائد محترم تو حکومت کے خاتمے کے لئے یکسو ہیں اور مولانا کا ساتھ دینے کے لئے بے تاب و پرجوش مگر مصلحت پسند قیادت رکاوٹ ہے۔

میں کیا کروں؟ خوف میاں صاحب کو بھی وہی لاحق جو میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو ہے کہ اگر لانگ مارچ ‘دھرنے میں اور دھرنا ‘انتشار و فساد میں تبدیل ہوا تو حالات کیا رخ اختیارکریں گے؟ ارشاد احمد کا کہنا تھا کہ 1977ء اور 1999ء کی طرح کُھلی مداخلت یا 1993ء سے مشابہ درمیانی راستہ۔ 1993ء میں صورت حال مختلف تھی۔ ریاست کے دو ستون ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم باہم گتھم گتھا تھے اور آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کا کردار ثالث اور سہولت کار کا تھا۔

اب مگر حالات خاصے مختلف ہیں۔ میاں شہباز شریف برادر بزرگ سے کھل کر کہہ پاتے ہیں یا نہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے یا دونوں بھائی مگر یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں‘ کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں مداخلت ہوئی تو باری ملنے کا امکان تو شاید اب بھی نہیں، یہ ضمانتوں کی سہولتیں، جیلوں اور حوالات میں شاہانہ مراعات اور مقدمات کا التواء جیسی عیاشی بھی ختم ہو سکتی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں