افغان مسئلہ کا فوجی حل نہیں ،طالبان امریکہ کیساتھ بات چیت کی بحالی کیلئے کام کریں اور بات چیت کا آغاز کیاجائے،وزیر خارجہ

پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کے لئے پرعزم ہے، مشرق میں ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس سے ہم آگاہ ہیں، شاہ محمود قریشی کا خطاب

جمعرات 17 اکتوبر 2019 13:37

افغان مسئلہ کا فوجی حل نہیں ،طالبان امریکہ کیساتھ بات چیت کی بحالی کیلئے کام کریں اور بات چیت کا آغاز کیاجائے،وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اکتوبر2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان مسئلہ کا فوجی حل نہیں ،طالبان امریکہ کے ساتھ بات چیت کی بحالی کے لئے کام کریں اور بین الافغان بات چیت کا آغاز کیاجائے،پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کے لئے پرعزم ہے، مشرق میں ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس سے ہم آگاہ ہیں،بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر سے فوری کرفیواٹھایا جائے ، کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے،پاکستان اور چین کی سدابہار سٹرٹیجک کوآپریٹو شراکت داری خطے میں امن اور استحکام کی ایک ٹھوس وجہ ہے،سی پیک پاکستان کی ترقی کے ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے اور سی پیک منصوبہ جات کی تیزی سے تکمیل ہماری حکومت کی اعلی ترین ترجیح ہے،حالیہ دورہ چین میں چینی سرمایہ کاری کیلئے مزید منصوبہ جات کی تجویز دی گئی ہے جس سے ہماری معیشت کو مزید تقویت ملے گی اور اس میں تحرک پیدا ہوگا،پاکستان، امریکہ کے ساتھ طویل المدتی اور پائیدار شراکت داری چاہتا ہے،امید ہے امریکہ اور پاکستان تعمیری انداز میں کام جاری رکھیں گے،خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی ہمارے مشترکہ اہداف ہیں،سلامتی کے لئے ہم اپنی کوششوں کو محض خود تک محدود نہیں سمجھتے۔

(جاری ہے)

جمعرازت کو یہاں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایئر یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میرے لئے یہ بہت ہی عزت کا مقام ہے کہ آج اس معزز فورم پر ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی‘‘ کے بارے میں اظہار خیال کروں۔ انہوںنے کہاکہ میں آج خودکو آپ جیسے روشن دماغ، دانشورانہ تجسس رکھنے اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک افراد کے درمیان پاکر بے حد مسرور ہوں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ آج کی اس نشست سے علمی بنیادوں پر سوچ کے نئے دریچے وا ہوں گے۔ میں خاص طورپر ائیر مارشل فیض عامر کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے زیر بحث موضوع پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے جس نے تبدیل ہوتے علاقائی اور عالمی حالات میں نہایت اہمیت حاصل کرلی ہے۔ اکثر پوچھا جاتا ہے کہ بین الریاستی تعلقات میں ہم علاقائی اور عالمی سطح پراپنے قومی وسفارتی مفادات کا تحفظ کیسے کرسکتے ہیں اور انہیں کیسے فروغ دے سکتے ہیں۔

مختصر جواب ہے نہایت ہوشمندی سے۔انہوںنے کہاکہ خارجہ پالیسی کی تیاری ہمیشہ سے پیچیدہ اور وسیع عمل رہا ہے۔ اس میں کلیدی فریقین سے تفصیلی مشاورت درکار ہوتی ہے۔ قومی اختیار کے تمام اجزاء جیسا کہ معاشی قوت، سماجی ہم آہنگی، ادارہ جاتی توازن، فوجی صلاحیت، اتحادیوں کا نیٹ ورک، نظریاتی پختگی وہ چند پہلو ہیں جنہیں میں یہاں بیان کررہا ہوں۔

یہ وہ اجزا ہیں جو خارجہ پالیسی کی تیاری اور تدریج میں اہم ہیں۔ عمل درآمد کا مرحلہ بھی اتنی ہی مشقت طلب اور صبرآزما ہے۔ انہوںنے کہاکہ بجا طورپر یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہئے کہ خارجہ پالیسی ایک موقع نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔ یہ مختصر تیز دوڑ کی طرح نہیں بلکہ ایک لمبی دوڑ کی طرح ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم’ ہوبیسین ورلڈ‘ میں رہتے ہیں۔ ایسی دنیا جو طوائف الملوکی، تغیر اورسیاسی وتزویراتی عوامل کے دباو میں رہتی ہے۔

یک طرفہ اقدامات، قوم پرستی، اجنبیوں یا مہاجرین سے بیزاری اور عوام کی ملکیت کے اصول تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور غیریقینی پیدا کررہے ہیں۔ یہ منظر دنیا نے دہائیوں میں نہیں دیکھا تھا۔ انہوںنے کہاکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو کثیرالطرفہ انتظامات کئے گئے تھے، وہ طاقتور قوتوں کے نشانے پر ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تبدیلی نے انسان کی ہزار سالہ طرز زندگی پر اثرات مرتب کئے ہیں، اس کی رفتار اور شرح میں مسلسل تبدیلیاں ہورہی ہیں اور ہمیں ہر پل ان کاسامنا ہے۔

انہوںنے کہاکہ عالمی معیشت کا مرکز ومحور مغرب سے مشرق کی طرف تبدیل ہورہا ہے۔ کچھ پنڈتوں کا استدلال ہے کہ ہم تاریخ کے ایسے مرحلے پر ہیں جہاں ہمیں ریاستوں کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال کا سامنا ہے جیساکہ ابھرتی ہوئی ریاست اور پہلے سے قائم ریاست کے درمیان تنازعہ ناگزیر ہے۔ بڑی طاقتوں میں ایک دوسرے کی مخالفت، علاقائی کشیدگیاں، دیرینہ حل طلب مسائل، تسلط پسندانہ اہداف ہمارے خطے میںجاری صورتحال کو واضح کرتے ہیں۔

دوسری جانب دیکھیں تو مثبت پہلو یہ ہے کہ ہمارے خطے میں ترقی اور علاقائی روابط کے ضمن میں بے پناہ مواقع اور صلاحیت موجود ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایسے مشکل حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ترجیحات متعین ہیں،جاری چیلنجز سے مقابلہ کرتے ، حالات وواقعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی مفادات کا تحفظ ہماری جستجو کا محور ومرکز ہے۔ اس پس منظر میں میں سکیورٹی اور ترقی کے لئے ناگزیر ہماری خارجہ پالیسی کے چند بنیادی اور کلیدی پہلوآپ کے سامنے پیش کروں گا جہاں ہم اپنے اہداف کے حصول کے لئے فعال ومتحرک ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نصب العین اور ڈھانچہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس فرمان پر استوار ہے کہ ’’داخلی امن کے بناء خارجی امن ممکن نہیں۔ ‘‘ انہوںنے کہاکہ اس فرمان کے اطلاق میں ہماری داخلی ترجیحات ہیں ،عوام کے لئے معاشی ترقی اور ایک فلاحی ریاست کا قیام مضمر ہے۔ خارجی محاذ پر ’’پرامن ہمسائیگی‘‘ ہمارا مستقل مدعا ومنشور ہے۔

انہوںنے کہاکہ مشرق میں ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس سے ہم آگاہ ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں اپنے غیرقانونی اور غیراخلاقی قبضہ کو مستحکم بنانے کے لئے یک طرفہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں و عالمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ بھارتی ارادہ ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیرکی عالمی سطح پر مسلمہ متنازعہ حیثیت ،اس کی آبادی کا تناسب اور شناخت تبدیل کردے۔

انہوںنے کہاکہ 70 دن سے 80 لاکھ لوگوں کا غیرانسانی لاک ڈائون جاری ہے،کشمیری عوام بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں ناقابل بیان مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مضبوط کیس پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر سے فوری کرفیواٹھایا جائے اور کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے۔

میں ذاتی طورپر وزراء خارجہ اور عالمی رہنماوں کے ساتھ مصروف عمل رہا اور بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں وقوع پزیر انسانی المیہ کے بارے میں انہیں احساس دلایا ہے۔ ہم نے بھارت کی جانب سے کسی ’فالس فلیگ آپریشن ‘کے امکانات سے بھی آگاہ کیاہے۔ہم نے دنیا کو بھارت کے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدمات کے نتیجے میں امن وسلامتی کو لاحق سنگین خطرات سے آگاہ کیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ بھارت اپنی مایوسی اور جھنجھلاہٹ میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں صورتحال کو ’’معمول‘‘ کے مطابق دکھانے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کی اس کوشش کو دیگر ذرائع سے آنے والی اطلاعات، پرتشدد حراستوں اوربین الاقوامی میڈیا کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس نے بے نقاب کردیا ہے۔ یہ اس امر کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح بھارت اپنے مزموم عزائم سے دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے متبادل حقیقت دکھا نے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ایسا ہی ایک جھوٹ مقبوضہ جموں وکشمیر میں موبائل فون کی بحالی کی صورت بولا گیا۔ انہوںنے کہاکہ ہم کشمیریوں کے استصواب رائے کے جائز ومنصفانہ حق کے حصول کی جدوجہد میں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ پاکستان اور کشمیری تمام حکومتوں، عالمی اور علاقائی انسانی حقوق کی تنظیموں ، سول سوسائیٹی کے ارکان اور عالمی میڈیا کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بھارت کے غیرقانونی اور یک اقدامات کے خلاف آواز بلند کی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کی حمایت کی۔

انہوںنے کہاکہ بھارت اپنی جوہری اور روایتی فوجی طاقت میں بے پناہ اورمسلسل اضافہ کررہا ہے اور عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کررہا ہے، ان اقدامات میں بحر ہند کو جوہری بنانا ، اینٹی بیلسٹک میزائلوں کی تنصیب ، خلاء میں سیٹلائٹ کو نشانہ بنانے کاتجربہ اوراس کے نتیجے میں خلاء میں پیدا ہونے والا کچرہ، اورہرقسم کے جوہری ہتھیار لیجانے کی صلاحیت میں اضافہ شامل ہے۔

انہوںنے کہاکہ جز وقتی انتخابی وسیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بھارت شدید جنگی جنون میں مبتلا ہوکر جوہری دھمکیاں دیتا چلا آ رہا ہے۔ اس نے اعلانیہ جوہری بیان کردہ پوزیشن تبدیل کی ہے۔ جوہری حملے میں پہل کے باربار اشارے دئیے۔ یہ امر واضح رہنا چاہے کہ بھارت پہلے ہی متعددجارحانہ فوجی نظریات رکھتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے ساتھ اس کی روایتی قوت پہلے ہی موجود ہے۔

بھارت دوطرفہ مذاکرات سے انکاری ہے اور خطرات کم کرنے کی تجاویز مسترد کرتا ہے، اعتماد سازی ،جوہری و دیگر مسائل میں تحمل سے انکاری ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح ماضی میں ہمسایوں کے خلاف کس طرح تسلط پسندانہ عزائم آگے بڑھائے گئے۔ یہ پاکستان کی سلامتی کے لئے واضح اور موجود خطرہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان امن اور سٹرٹیجک استحکام کا خواہاں ہے تاکہ سماجی واقتصادی ترقی کے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کی جاسکے۔

ہمارا طرز عمل تحمل اور ذمہ داری اور اسلحہ کی دوڑ سے بچنے کا ہے۔ تاہم پاکستان سکیورٹی مضمرات سے صرف نظر نہیں کرسکتا جو اس کے ہمسائے کی طرف سے ہورہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں کشیدگی اور جنگ کے پاکستان اور اس کے معاشرے پر فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان طویل عرصے سے کہتا آیا ہے کہ افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ ہمارا یہ موقف آج پوری دنیا میں تسلیم ہو رہا ہے ، سیاسی تصفیہ کے لئے تمام فریقین کے اتفاق سے معاہدے کا ہونا اس امر کا ثبوت ہے۔

پاکستان افغانستان میں امن ومفاہمت کا مکمل حامی ہے کہ افغان اپنی قیادت میں خودکو قابل قبول اپنے طے کردہ حل کے ذریعے معاملہ کو سلجھائیں۔ ہم نے دوحہ اور ابوظہبی میں افغان امن بات چیت کے تمام ادوار کی مکمل حمایت کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ اور طالبان میں بات چیت دوبارہ بحال ہوگی اور افغان طبقات میں بات چیت آگے بڑھانے کا زریعہ بنے گی۔

انہوںنے کہاکہ چین، افغانستان اور پاکستان نے سات ستمبر کو سہ ملکی وزراء خارجہ اجلاس منعقد کیا۔ ہم نے معاہدہ پر پہنچنے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ افغانستان میں ترقی اور روابط کے لئے تمام امور میں گہرا تعاون استوار ہوگا۔انہوںنے کہاکہ سینئر طالبان کا وفد حال ہی میں پاکستان آیا اور ہم نے ان پر زوردیا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کی بحالی کے لئے کام کریں اور بین الافغان بات چیت کا آغاز کیاجائے۔

ان کے جواب سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کے لئے پرعزم ہے۔ہم ایسا افغانستان چاہتے ہیں جو نہ صرف داخلی طورپر امن کی نعمت سے مالا مال ہو بلکہ اس کے ہمسائے بھی امن کی یہ ٹھنڈی ہوا حاصل کرسکیں۔ ہم افغانستان میں امن ومفاہمتی عمل کی حمایت جاری رکھیں گے ، ہم ترقی میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہیں گے تاکہ پاکستان میں مقیم تیس لاکھ سے زائد افغان باشندوں کی عزت ووقار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپسی ممکن ہوسکے۔

انہوںنے کہاکہ چین ہمارا قریبی دوست اور ہمیشہ کا بااعتماد شراکت دار ہے۔ پاکستان اور چین کی سدابہار سٹرٹیجک کوآپریٹو شراکت داری خطے میں امن اور استحکام کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔گزشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں وسعت وگہرائی اور تنوع آیا ہے۔ ہم اپنے تعلقات کو مزید بہتر سے بہتر تر اور اپنے سٹرٹیجک، معاشی، تجارتی ،عوامی سطح پر تعلقات اور سرمایہ کاری کے مفادات کو بڑھاتے جائیں گے۔

انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے آٹھ اور نو اکتوبر کو چین کا دورہ کیا۔ یہ وزیراعظم کا ایک سال کے عرصے میں چین کا تیسرا دورہ تھا۔وقوع پزیر ہوتی جیوپولیٹیکل صورتحال متقاضی ہے کہ قیادت کی سطح پر زیادہ ملاقاتیں ہوں۔ وزیراعظم کے دورے کا نتیجہ دونوں سٹریٹیجک شراکت داروں کے علاقائی اور بین الاقوامی موضوعات پر یکساں خیالات کا مظہر ہیں۔

انہوںنے کہاکہ سی پیک پاکستان کی ترقی کے ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے اور سی پیک منصوبہ جات کی تیزی سے تکمیل ہماری حکومت کی اعلی ترین ترجیح ہے۔ ہم سی پیک منصوبہ جات پر عمل درآمد کے لئے پرعزم ہیں اور ہمارے حالیہ دورہ چین میں چینی سرمایہ کاری کے لئے مزید منصوبہ جات کی تجویز دی گئی ہے جس سے ہماری معیشت کو مزید تقویت ملے گی اور اس میں تحرک پیدا ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ میں چین کی کاوشوں کا اعتراف کرنا چاہوں گا جو اس نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو انصاف کے حصول کی جدوجہد میں کیں۔ پاکستان، امریکہ کے ساتھ طویل المدتی اور پائیدار شراکت داری چاہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان دو مرتبہ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کرچکے ہیں اور اعلی سطحی رابطے ہوئے ہیں۔ اس سطح کے رابطے اور سرگرمیاں اس سے قبل حالیہ برسوں میں، میں نہیں دیکھے گئے تھے۔

سلامتی سے لے کر تجارت تک ، سرمایہ کاری، توانائی، عوامی سطح پر روابط تک وسیع ایجنڈے پر بات چیت ہوئی اور مختلف شعبہ جات میں باہمی مفاد میں مل کر کام کرنے کا کہاگیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم ان تعلقات کو اصولوں ، باہمی احترام وباہمی مفاد میں آگے لے کر بڑھیں، ہم نے دانشمندی اور جذبے سے کام لیتے ہوئے خیالات کی ہم آہنگی کے لئے کام کیا ہے اور ہم نکتہ ہائے نظر کو یکساں بنانے کے لئے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ امریکہ اور پاکستان تعمیری انداز میں کام جاری رکھیں گے۔ خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی ہمارے مشترکہ اہداف ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں اس مقصد کے لئے عظیم انسانی اور مالی نقصانات جھیلے ہیں۔ نتیجے کے طورپر معاشی ترقی کے امکانات اور شرح نمو بڑھانے میں گراں قدرمدد ملی ہے۔

بہت سے ممالک ہماری پزیرائی کررہے ہیں اور سرمایہ کاری کے مواقع کے لئے رابطے کررہے ہیں۔ ہمیں اعتماد ہے کہ آگے جانے کے لئے پاکستان عالمی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کے لئے پرکشش مقام بن چکا ہے۔ انہوںنے کہاکہ یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات سٹرٹیجک اہمیت کے ہیں۔ یورپ اور برطانیہ بریکسٹ کے چیلنج سے نبردآزما ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے یورپ کے ساتھ کثیرالجہتی تعلقات ہیں جو مسلسل فروغ پارہے ہیں۔

معاشی ترقی کے عمل اور امن، استحکام اور خطے وعالمی خوشحالی کے لئے یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت اہم ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ بھی آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ مجھے شہزادہ ولیم اور شہزادی کو پاکستان آمد پر خیرمقدم کرنے کا موقع ملا۔ شاہی جوڑا پانچ دن کے دورے پر پاکستان آیا ہے اور پاکستان کے خوبصورت مقامات اور دیگر رنگوں کو دیکھ رہا ہے۔

اس طاقتور آئینے سے ہمیں امید ہے کہ دنیا پاکستان کے خوبصورت مقامات، ثقافتی رنگ اور لسانی تنوع دیکھنے کے لئے متوجہ ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے لئے مشرق وسطی نہایت اہم سٹرٹیجک، معاشی، سلامتی اور ثقافتی شراکت دار ہے۔ ہمارے تہذیبی چشمے اور اقداروروایات کے رشتے اس کے علاوہ ہیں۔ ہمارے اسلامی ممالک سے نہایت دیرینہ اور قریبی تعلقات استوار ہیں۔

خطے کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر فروغ پارہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پچاس لاکھ پاکستانی وہاں ملازمت کرتے ہیں۔ اربوں ڈالر کی رقوم وہاں سے بھیجتے ہیں جو ہماری معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مشرق وسطی ہمارے لئے نہایت اہم ہے،اس خطے میں جنگ کے پوری دنیا پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوتے جو پاکستان کی معیشت کے لئے بھی گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتے۔

ہم ہر وہ کچھ کررہے ہیں جس سے ہم خطے میں کشیدگی کم کرسکیں اور خطے میں پائیدار امن واستحکام کو یقینی بناسکیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کا دورہ کیا تاکہ کشیدگی کو کم کیاجاسکے اور خطے میں امن واستحکام کو فروغ مل سکے، میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ ابتدائی مشاورت سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور کشدگی میں پہلے ہی کمی دیکھی جاسکتی ہے۔

ہمیں امید ہے تنازعات اور اختلافات کوسیاسی وسفارتی ذرائع سے حل کرنے کے لئے آمادگی ہوگی۔ ان کوششوں کے ثمرآور ہونے کے فوائد سب کے حصے میں آئیں گے اور ہم تصادم کی بجائے تعاون پر توجہ مرکوز کرسکیں گے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی افریقہ اور لاطینی امریکہ سے بھی روابط فروغ پارہے ہیں۔ دنیا کے ان اہم خطوں کے ساتھ تعلقات کی بہتری ہمارے معاشی اور ثقافتی پہلووں سے نہایت اہم ہے۔

پاکستان اس ضمن میں اپنے تعلقات کی بہترین صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئے پرعزم ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں اختتام میں یہ پھر کہنا چاہوں گا کہ پاکستان خارجہ پالیسی اہداف کے حصول کے لئے کلیدی کردارادا کررہا ہے، خطے اور دنیا میں امن واستحکام کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ پروگریسو، عملی اور لبرل پالیسیوں کے ساتھ ہم ان اہداف کو حاصل کرسکتے ہیں۔

ہم خطے میں معاشی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ سلامتی کے لئے ہم اپنی کوششوں کو محض خود تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس میں سب کے لئے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ سب کے حصے میں ہی ثمرات آئیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری تعمیری سوچ کا اسی جذبے سے جواب دیا جائے گا اور امن وخوشحالی کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں