وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن، فضل الرحمٰن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، حکومتی مذاکراتی ٹیم

تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کررہے ہیں آکر بات کریں ،جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی ، اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی اور ملک کو نقصان پہنچے گااس کی تمام ذمہ داری اپوزیشن پر ہوگی ،مذاکرات نہیں کرینگے تو حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں ، پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا،جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کیلئے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ،کوئی سمجھتا ہے ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے،اپوزیشن سے رابطے کیے ہیں، ہمیں مثبت رسپانس ملا ہے،اب حکومت کی جانب سے کوئی بیان بازی نہیں ہو گی، پرویز خٹک کی حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس

ہفتہ 19 اکتوبر 2019 17:45

وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن، فضل الرحمٰن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، حکومتی مذاکراتی ٹیم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اکتوبر2019ء) وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کیلئے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، مطلب ہے مولانا فضل الرحمن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں،تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کررہے ہیں آکر بات کریں ،جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی ، اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی اور ملک کو نقصان پہنچے گااس کی تمام ذمہ داری اپوزیشن پر ہوگی ،مذاکرات نہیں کرینگے تو حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں ، پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا،جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کیلئے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ،کوئی سمجھتا ہے ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے،اپوزیشن سے رابطے کیے ہیں، ہمیں مثبت رسپانس ملا ہے،اب حکومت کی جانب سے کوئی بیان بازی نہیں ہو گی۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو یہاں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا کہ جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پاناما کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھاجس پر ہم نے سب سے درخواست کی کہ اس پر تحقیقات کی جائے لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، تاہم جب پاناما کا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں ہم نے حکومتی لوگوں سے بات کی۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے تو بات کریں، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔پرویز خٹک نے کہا کہ ہماری جانب سے بار بار بات کرنے کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت سے حل کریں، تاہم اگر آپ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو پھر جو افراتفری پھیلے گی، ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اٴْن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلا نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا۔

انہوںنے کہاکہ اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے، ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔وزیر دفاع ن کہا کہ ہمیں پاکستان کی فکر ہے، اگر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچا، کاروبار خراب ہوا تو اس کا ازالہ کون کرے گا ، ہم نے اپنے تمام کارڈز کھول دئیے ہیں، اگر کل کو کچھ ہوا تو پھر کہا جائے گا کہ حکومت یہ کر رہی لیکن حکومت نے وہی کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوگا، حکومت نے وہی فیصلے کرنے ہیں جس سے ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے، اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے اور اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا، ۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ مولانا کے مارچ کی خبروں کے بعد کشمیر کا ایجنڈا میڈیا سے ہٹ گیا ہے ،اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کس کا ایجنڈا ہو سکتا ہی اگر مولانا صاحب کا کوئی ایشو ہے تو ہم سے بات کریں،انکی ہر بات سنیں گے،اگر وہ بات نہیں کرتے تو اسکا واضح مطلب ہو گا کہ انکا ایجنڈا کچھ اور ہے۔

انہوںنے کہاکہ سب پاکستانی ہیں، مجھے یقین ہے مولانا کسی کے ایجنڈے پر نہیں چلیں گے۔ وزیراعظم کے بیان پر پرویز خٹک نے کہاکہ کسی نے کسی کو گالی نہیں دی، اپوزیشن خود اپنی باتوں پر توجہ دے۔ ایک اور سوال پر انہوںنے کہاکہ چیئرمین سینٹ اس کمیٹی کا حصہ ہیں،پہلے ہماری کوشش تھی کہ چیئرمین بلوچستان شامل ہوں،اگر چیئرمین بلوچستان شامل ہوے تو سنجرانی صاحب شامل نہیں ہوں گے،اسپیکر قومی اسمبلی پرویز الٰہی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

شفقت محمود نے کہاکہ میں تنبیہ کرتا ہوں کہ مولانا مدارس کے بچوں کو مارچ یا دھرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔ پرویز خٹک نے کہاکہ اپوزیشن سے رابطے کیے ہیں، ہمیں مثبت رسپانس ملا ہے۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ ہماری کمیٹی صرف مذاکرات کے لیے ہے، اگر مذاکرات ناکام ہوے تو حکومت اور وزارت داخلہ فیصلہ کریں گے کہ کیسے نمٹنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ ہم اپوزیشن کے پاس چل کر جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ملک کی سرحدوں پر حالات بہت خراب ہیں،اگر اپوزیشن مذاکرات کے لیے نہ مانی تو اسکا مطلب ہو گا کہ وہ مودی اور بھارت کو خوش کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ریاست مسلح جتھوں کی اجازت کسی حال میں بھی نہیں دے سکتی۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ اب حکومت کی جانب سے کوئی بیان بازی نہیں ہو گی،اگر اپوزیشن کو پاکستان اور کشمیریوں سے محبت ہے توبات چیت کریں گے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں