سی ڈی اے نے متنازعہ علاقوں میں اسلام آباد کی حد بندی کا عمل روک دیا

وفاقی حکومت اور مشترکہ مفادات کونسل ان متنازعہ علاقوں کے حوالے سے جب تک حتمی فیصلہ نہیں کرتے یہاں حد بندی کے لئے پلر نہیں لگائے جائیں گے ، ترجمان سی ڈی اے ؒوفاقی اور کے پی کے حکومت کے مابین تلہاڑ ، کینٹلا کے علاقوں میں حد بندی کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں ، ذرائع

پیر 18 نومبر 2019 23:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 نومبر2019ء) وفاقی ترقیاتی ادارے ( سی ڈی اے ) نے 4 متنازعہ علاقوں میں مزاحمت کے پیش نظر حتمی حکومتی فیصلہ آنے تک دارالحکومت کی حد بندی کے حوالے سے باؤنڈری ستون کھڑے کرنے کا کام روک دیا ہے تاہم متنازعہ علاقو ں کے علاوہ دارالحکومت کی حد بندی کا منصوبہ تقریبا مکمل کر لیا گیا ہے ۔ ترجمان سی ڈی اے سید صفدر علی نے بتایا کہ سی ڈی اے نے 4 متنازعہ علاقوں میں ستون کھڑنے کرنے کا کام اس وقت تک روکا ہے جب تک وفاقی حکومت اور مشتر کہ مفا دات کونسل کی جانب سے اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاتا ان 4 متنازعہ علاقوں میں خیبرپختونخوا ، پنجاب راولپنڈی کنٹونمنٹ کے ایریاز شامل ہیں جن میں اسلام آباد کی حدود کے لئے ستون کھڑے نہیں کئے جا رہے ۔

(جاری ہے)

ترجمان کا کہنا تھا کہ ان متنازعہ علاقوں کے علاوہ اسلام آباد کی حدود بندی کا منصوبہ تقریبا مکمل ہو چکا ہے انہوں نے کہا کہ مارگلہ پہاڑیوں سے ملحقہ علا قو ں کینٹلا اور تلہاڑ میں دیہاتیوں نے ہما ری ٹیم کو کام کرنے سے روکا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ زمین اسلام آباد کی نہیں بلکہ کے پی کے میں ہری پوری کا حصہ ہے ۔اس کے بعد یہ معاملہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ہری پور کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اٹھایا گیا جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس علاقے میں اس وقت تک ستون کھڑے نہیں کریں گے جب تک وفاقی حکومت اس بارے میں فیصلہ نہیں کرتی اس کے علاوہ فیض آباد میں بھی اسلام آباد کی حد بندی کی جانی ہے جبکہ کنٹونمنٹ کے علاقوں سے متصل آئی 12 میں بھی حد بندی کا عمل روک دیاگیا ہے کیونکہ یہ علاقہ بھی متنازعہ سائیڈ پر آتا ہے ۔

ترجمان نے کہا کہ باؤنڈری پلر لگانے کے منصوبے کا مجموعی طور پر 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ۔ یہ منصوبہ سپریم کورٹ کے حکم پر جون 2018 میں شروع کیا گیا تھا جو 90 دنوں میں مکمل ہونا تھا ۔ اس سلسلے میں اس منصوبے کو متعدد بار توسیع دی گئی جس کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقرر کی گئی تھی ۔ ترجمان نے کہا کہ 1032 پلرز میں سے 900 ستون تعمیر ہو چکے ہیں باقی کو جلد مکمل کر لیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور کے پی حکومت کے درمیان اس معاملے کے حوالے سے صورت حال کچھ پیچیدہ ہے کیونکہ سروے آف پاکستان کے مطابق یہ علاقے اسلام آباد سے منسلک ہیں لیکن دیہات کے ریکارڈ کے مطابق ان علاقوں کو کے پی کے کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو متعلقہ فورم مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانے کے لئے وزارت داخلہ کو سمری بھیجی جائے گی ۔

جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ان متنازعہ علاقوں کی حد بندی کے حوالے سے فوری فیصلہ کیا جائے ۔ یہ سمری چند دنوں تک وزارت داخلہ کو ارسال کر دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ فیض آباد کے قریب اسلام آباد راولپنڈی کے مابین متنازعہ علاقے سے متعلقہ معا ملہ تقریباً طے پا چکا ہے کیونکہ راولپنڈی کے حکام اس بات پر قائل ہیں کہ یہ متنازعہ علاقہ دارالحکومت میں آتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ اور سی ڈی اے میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ آئی 12 کی حد بندی کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے ۔ ۔انہوں نے بتایا کہ 1963 Aکے نوٹیفیکیشن کے مطابق دارالحکومت کا علاقہ 906 سکوائر میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور یہ علاقہ بھی دارالحکومت کے ماسٹر پلان میں شامل ہے ۔1979 ء کی لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی روشنی میں اس علاقے کو راولپنڈی سے خارج کر دیا گیا تھا اور ایک اور نوٹیفیکیشن جو 1981 میں جاری کیا گیا اس میں راولپنڈی اور مری کے ملحقہ متعدد موضعات کو کیپیٹل ٹریٹری کا حصہ بنایا گیا تھا ۔

آئی سی ٹی کا محکمہ مال اس وقت ان علاقوںکے زمینی امور نمٹا رہا ہے ان علاقوں میں پھلگراں اور بوبڑی گاؤں شامل ہیں ان میں سے متعدد علاقے 1963 کے ماسٹر پلان کا حصہ نہیں تھے جنہیں بعدازاں 1981 ء میں آئی سی ٹی کی حد بندی میں شامل کیا گیا ۔سی ڈی اے حکام کے مطابق ان علاقوں کے مکینوں کو متعدد بار حد بندی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔تاہم اب ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سی ڈی اے ریونیو ڈائریکٹوریٹ اس سلسلے میں کام کر رہا ہے ۔ ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں