سپریم کورٹ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف زیرسماعت صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت

منگل 19 نومبر 2019 22:38

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 نومبر2019ء) سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف زیرسماعت صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں، اگر اہلخانہ کی جائیداد کا تعلق جج سے ثابت ہو جائے تو پھر زیر کفالت ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں رہتا۔

کونسل ربڑ سٹمپ نہیں اور ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ہی ختم کرتی ہے ، ایک جج سے اعلیٰ معیارات برقرار رکھنے کا تقاضا اچھی بات ہے۔ منگل کوجسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل بابر ستار نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل 209 کے تحت تحفظ نہیں مانگ رہے بلکہ میرے مو کل چاہتے ہیں کہ ٹیکس حکام الزامات کی انکوائری کریں کیونکہ صدر مملکت کے سامنے کسی جج کیخلاف جومواد جاتاہے وہ شک وشبہ سے بالاتر ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

اثاثے چھپانے کا سوال تب پیدا ہوگا جب انہیں ظاہر کرنا لازم ہو، اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پر جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، بلواسطہ مس کنڈکٹ یا عام قانون کی خلاف ورزی پر متعلقہ عدالت کا فیصلہ ضروری ہے، پرائیویٹ کنڈکٹ کا جائزہ لینے کیلئے جج کو نوٹس جاری کیا جانا چاہئے جس پرجسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جج صاحبان کیخلا ف کتنی شکایات آتی اور کتنی پر کارروائی ہوتی ہیںتوبابر ستار نے کہا کہ جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت شکایات اور مکمل تفصیلات کے حصول کیلئے بھی ہماری ایک درخواست زیر سماعت ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججز کیخلاف کئی شکایات بھیجی جاتی ہیں،سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار محض نمائشی نہیں ہے ،بلکہ ان معاملات میںکونسل آزادانہ اپنا ذہن استعمال کرتی ہے ،کونسل نیک نیتی کی بنیاد پر آمدن کا ذریعہ پوچھتی ہے ، بتایاجائے کہ کونسل پر آپ کی بد اعتمادی کیوں ہے۔ توفاضل وکیل نے کہا کہ ہم نے جوڈیشل کونسل پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا ،ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ کیا صدر نے ریفرنس بھیجنے سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں ، کیونکہ اس معاملے میں میڈیا میں جج اور اسکے اہل خانہ کیخلاف مہم چلائی گئی ہے ۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ یہ بدنیتی کا معاملہ ہے اس پر ایڈووکیٹ منیر اے ملک با ت کر چکے ہیں۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے مزید کہا کہ صدارتی ریفرنس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اثاثے کیوں ظاہر نہیں کئے ہیں،جسٹس قاضی فائز بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کرتے تھے ، یہ الزام بھی نہیں لگایا گیا کہ وہ ٰ لندن کے فلیٹس خریدنے کے قابل نہیں تھے ، اگرلندن فلیٹس چھپانا مقصد ہوتا تو آف شور کمپنی بنائی جاتی، ایسا کوئی مواد پیش نہیں کیا گیا جس سے ثابت ہو کہ لندن کے اثاثے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملکیت ہیں۔

فل کورٹ کے سربراہ نے ان سے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ، جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے بچوں کے پاسپورٹ سرکاری ہیں اگر جج کے بچے اور اہلیہ فائدے انجوائے کررہے ہوں تو کیا پھر بھی انکے اقدامات پر احتساب نہیں ہو سکتا۔ جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جج کی بیٹی شادی ہونے کے بعد میڈیکل سہولیات نہیں لے سکتی اور بیٹے کی عمر اگر 25 سال ہو تو وہ بھی والد کے عہدے کے فوائد نہیں لے سکتا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر جائیداد کا تعلق جج سے ثابت ہو جائے تو پھر زیر کفالت ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں رہتا۔ بابر ستار نے کہا کہ جج بھی شہری ہیں ان کیلئے بھی روزمرہ زندگی کے معمولات میں مسائل ہو سکتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ربر سٹمپ نہیں اور ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ختم کرتی ہے ججز کو علم بھی نہیں ہوتا، آخرکیا وجہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کونسل کی کاروائی سے بچ رہے ہیں بابر ستار نے کہا کہ یہ کیس ریفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیار کے بارے میں ہے، سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو جج کو نوٹس جاری کر سکتے ہیں یا نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر کوئی جج سے اعلی معیار چاہے تو یہ اچھی بات ہے کیس میں بھی جج اور ان کی اہلیہ سے متعلق بات کی گئی ہے جج صاحب کی اہلیہ پر تو اثاثے ظاہر کرنا لازم تھے۔ بابر ستار نے کہاکہ اگر ٹیکس اتھارٹی مطمئن نہیں تھی تو اس معاملے میں ان کو25 ہزار روپے جرمانہ کر سکتی تھی ، لیکن اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پرجج کا احتساب نہیں ہو سکتا ، ان کے مو کل کے خلاف ریفرنس میں کوڈ آ ف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا نہیں کہا گیا ہے یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کیا پرانے عہدے پر مس کنڈکٹ موجودہ عہدہ سے ہٹانے کیلئے استعمال ہو سکتا ہی میرا موقف ہے صدر کو ریفرنس بھیجنے سے پہلے شواہد کا جائزہ لینا چاہیے تھا جو کہ نہیں لیا گیا ہمارا مو قف واضح ہے ، جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب صدر مملکت کے سامنے شک و شبہ سے بالاتر مواد ہو تو اسے کونسل کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔

فاضل وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے مزید سماعت آئند ہ بدھ تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں