ذرا مارچ کا مہینہ تو آنے دو

سینئیر صحافی و کالم نگار سلیم صافی نے نئی پیشن گوئی کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 20 نومبر 2019 10:42

ذرا مارچ کا مہینہ تو آنے دو
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 نومبر 2019ء) : سینئیر صحافی و کالم نگار سلیم صافی نے اپنے حالیہ کالم میں موجودہ حکومت کے حوالے سے نئی پیشن گوئیاں کر دیں۔ تفصیلات کے مطابق جتنا فرینڈلی ماحول عمران خان کو ملا، ماضی کے کسی وزیراعظم کو نہیں ملا تھا لیکن جس قدر جلد انہوں نے لوگوں کو مایوس کیا، اس کی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان نے لوگوں کو باور کرایا تھا کہ اُن کی پارٹی نے ملکی مسائل کے حوالے سے بہت ہوم ورک کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دیانتدار اور ایکسپرٹ لوگوں کی ٹیم بھی تیار کی ہے لیکن اقتدار ملنے کے بعد پتا چلا کہ وہ سب دھوکہ تھا۔

کوئی ہوم ورک نہیں تھا اور اہل ترین لوگوں کی ٹیم ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ان کے پاس اپنا وزیر خزانہ تک نہیں تھا۔

(جاری ہے)

پنجاب جیسا صوبہ عثمان بزدار اور پختونخوا بزدار پلس (محمود خان ) کے حوالے کیا۔ جو چند ایک سنجیدہ لوگ تھے ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور اہم وزارتیں نا تجربہ کاروں کے حوالے کی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس لئے ناپسندیدہ قرار پائے تھے کہ دو تین کاروباری مافیاز ان کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی تھیں لیکن موجودہ حکومت کے گرد مافیاز ہی مافیاز ہیں۔

غیرملکی شہریت کے حامل مشکوک افراد کو ایرانی، سعودی اور امریکی سربراہانِ حکومت کے ساتھ حساس معاملات کا رازدان بنایا جارہا ہے۔ اور تو اور اہم ترین قومی فیصلے بھی توہمات کی بنیاد پر ہونے لگے۔ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ ایک اہم تقرری کے لئے ذہن بنانے کی خاطر ایک اہم گھر میں پتھروں پر مختلف نام لکھے گئے تھے اور کئی دنوں تک ایک خاص عمل اس لئے کیا جارہا تھا کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس حوالے سے کیا فیصلہ ہونا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا کے دھرنے کا معاملہ ہو یا میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا، دونوں میں وزیراعظم کے بیانیے کو شکست ہوئی جسے اب انہوں نے دل پر لے لیا ہے۔ چنانچہ دوسری طرف سے بھی ناراضی کا اظہار ہونے لگا ہے۔ مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم اور اب پیرپگاڑا کی طرف سے عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مولانا پہلے سے زیادہ مطمئن ہیں کہ ان کی آرزو ایک دو ماہ تک پوری ہوجائے گی۔

چوہدری پرویز الٰہی ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ذریعے مولانا کو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے تنقید کا رخ صرف اور صرف عمران خان کی طرف کردیا ہے۔ سلیم صافی نے پیشن گوئی کی کہ شہباز شریف کی طرف سے حکومتی اتحادیوں کے شکریے ادا کئے جارہے ہیں لیکن پھر بھی اقتدار کے نشے میں مست یا پھر اس سے مستفید ہونے والے خوش فہم یہ دہائی دے رہے ہیں کہ صفحہ بدستور ایک ہے۔ ان خوش فہموں کی نیندیں اڑ جائیں گی لیکن ذرا مارچ کا مہینہ تو آنے دو۔ تب ان کو پتہ چل جائے گا کہ شہباز شریف نے کیا سیاست دکھائی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن طعنے برداشت کرکے کیوں اسلام آباد سے بظاہر خالی ہاتھ واپس لوٹے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں