بی آر ٹی پشاور اور مالم جبہ ریفرنسز تیار ہیں، حکم امتناع کے باعث کارروائی نہیں کرسکتے،چیئرمین نیب

پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی تو قانون کی حکمرانی کا تصور آئے گا،2017 کے بعد سے کوئی اثر و رسوخ، کوئی جاہ و جلال،لالچ، دھمکی ایسی نہیں ہو جو راہ میں رکاوٹ نہ بنی ہو،خوداحتسابی پہلا عمل ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے، جسٹس جاوید اقبال کا خطاب

پیر 9 دسمبر 2019 13:41

بی آر ٹی پشاور اور مالم جبہ ریفرنسز تیار ہیں، حکم امتناع کے باعث کارروائی نہیں کرسکتے،چیئرمین نیب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2019ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہاہے کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) پشاور اور مالم جبہ کے ریفرنسز تیار ہیں ،حکم امتناع کے باعث کارروائی نہیں کرسکتے،پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی تو قانون کی حکمرانی کا تصور آئے گا،2017 کے بعد سے کوئی اثر و رسوخ، کوئی جاہ و جلال،لالچ، دھمکی ایسی نہیں ہو جو راہ میں رکاوٹ نہ بنی ہو،خوداحتسابی پہلا عمل ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے ، بد عنوانی کا خاتمہ کر ناہے ، 70،72 سال کا مرض ہے اسے شفایاب ہونے کیلئے ساری قوم کو نیب اور اپنے ملک کا ساتھ دینا ہوگا،حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں، شاہ کے وفاداروں کو ملک کا مفاد دیکھنا چاہیے،ہمارا کوئی گٹھ جوڑ نہیں اور نا ہی کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، چیئرمین نیب کو برا بھلا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں، آپ اپنا دفاع مضبوط کریں۔

(جاری ہے)

پیر کو یہاں بدعنوانی کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ بدعنوانی ایک عالمگیر مسئلہ ہے، یہ صرف نیب کا کام نہیں کہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کرے بلکہ ہر پاکستانی کے فرائض میں شامل ہے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ سسٹم کی بنیادیں اس لیے مضبوط نہیں ہوئیں کہ ہر طرف خود غرضی تھی، اپنے مفادات تھے، زر اور اقتدار کی ہوس تھی لہٰذا ملک میں ایسے ایسے تجربات کیے گئے کہ جب آدمی آنکھیں بند کرکے سوچتا ہے کہ ہماری فہم و فراست کہاں چلی گئی ہے اور ہم کن راستوں پر گامزن ہیں۔

انہوںنے کہاکہ جب حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت سنبھالی تو پہلا کام جو مشاورت کے بعد عمل میں لایا گیا وہ یہ تھا کہ وہ اپنا ذاتی کاروبار نہیں کریں گے تاہم یہاں ذاتی کاروبار تب شروع کیا جاتا ہے جب مسند اقتدار پر ہوتے ہیں یا اقتدار کی راہداریوں میں ہوتے ہیں، اس سے پہلے جو بزنس نہیں ہوتا وہ چند سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ خوداحتسابی پہلا عمل ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔

چیئرمین اقبال نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی تو قانون کی حکمرانی کا تصور آئے گا، قانون کی حکمرانی یہ نہیں ہے کہ پہلے آپ نے اسٹیٹس دیکھا، پھر چہرہ دیکھا، مرتبہ، جاہ و جلال اور اثر و رسوخ دیکھا پھر سوچا کہ ہم ایکشن نہیں لیتے بلکہ دوسری طرف سے ہو کر گزرجاتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ 2017 کے بعد سے کوئی اثر و رسوخ، کوئی جاہ و جلال،لالچ، دھمکی ایسی نہیں ہو جو راہ میں رکاوٹ نہ بنی ہو۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے اپنی منزل کا تعین کرلیا ہے اور وہ منزل ہے کہ ہم نے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے، مجھے اس امر کا احساس ہے کہ 70،72 سال کا مرض ہے اسے شفایاب ہونے کیلئے ساری قوم کو نیب اور اپنے ملک کا ساتھ دینا ہوگا۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے کی پہلی اینٹ ہم نے رکھ دی ہے لوگوں کو پتہ ہے کہ ہم نے کرپشن نہیں کرنی اور یہ بھی پتہ ہے کہ کرپشن نہیں کرنے دی جائے گی۔

انہوںنے کہاکہ ماضی میں جو کچھ ہوا ایسے لوگ بھی سامنے ہیں کہ کسی کی یہ جرات نہیں تھی کہ ان سے پوچھا جاتا کہ آپ نے کیا کیا ہے اس کا کریڈٹ نیب کو جاتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بڑے چھکے مارے آج وہ جیل میں ہیں، ضمانتوں کے لیے کوشاں ہیں یا یہاں سے روانہ ہوچکے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اقتدار کی ہوس کی خاطر ملک میں عجیب و غریب تجربات کیے گئے، لیکن کسی کے کفن میں جیب نہیں ہوتی۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہاکہ بادشاہت اور شہنشاہیت میں احتساب کا کوئی تصور نہیں ہوتا لیکن اگر خود احتسابی کا راستہ اختیار کیا جائے تو نیب اور ایف آئی اے کی ضرورت نہیں رہے گی۔انہوںنے کہاکہ وہ بڑے لوگ جنہوں نے بڑے چھکے مارے وہ پس زنداں ہیں، وہ آج یا تو ضمانتوں کیلئے عدالتوں میں جا رہے ہیں یا پھر یہاں سے روانہ ہو چکے ہیں۔چیئرمین نیب نے کہا کہ وزراء کہتے ہیں کہ یہ شخص 2 ہفتے بعد گرفتار ہو جائے گا، وزراء اس قسم کی پیشگوئیوں سے اجتناب کریں۔

انہوںنے کہاکہ ہواؤں کا رخ بدلنے لگا ہے، آئندہ چند ہفتے میں آپ دیکھیں گے، کسی سے دشمنی ہے نا دوستی، چاہیے وہ حزب اختلاف سے ہو یا اقتدار سے۔انہوں نے کہا کہ بی آر ٹی پر سوال کیا جاتا ہے کہ نیب ایکشن کیوں نہیں لیتا، مالم جبہ اور بی آر ٹی پر ریفرنس تیار ہے، عدالت کا حکم امتناعی ختم ہوتے ہی دونوں کیسز پر کارروائی ہو گی۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں، شاہ کے وفاداروں کو ملک کا مفاد دیکھنا چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب اور حکومت کا گٹھ جوڑ ہے، ہم ہر سیاستدان اور بیوروکریٹ کا احترام کرتے ہیں، ہمارا کوئی گٹھ جوڑ نہیں اور نا ہی کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، چیئرمین نیب کو برا بھلا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں، آپ اپنا دفاع مضبوط کریں۔انہوں نے کہا کہ 500 کی جگہ 500 کروڑ روپے لگیں گے تو پھر حساب تو لیا جائیگا، اپنے گریبان میں جو خود نہیں جھانکے گا تو نیب اس کے گریبان میں جھانکے گا۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کے مکمل خاتمے کا دعویٰ نہیں کر سکتے، معاشرے میں خوبصورت یا بدصورت شکل میں کرپشن موجود ہے، کرپشن کا خاتمہ صرف نیب نہیں ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔جاوید اقبال نے کہاکہ قوم کا پیسہ کھانے والوں نے عوام کے منہ سے نوالہ چھینا ہے، قوم کے پیسے سے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں خرید لی گئیں، منی لانڈرنگ کرنے والے کہتے ہیں انتقام لیا جارہا ہے، اربوں کھربوں کے حساب سے منی لانڈرنگ کی گئی۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ریاست مدینہ کے خوبصورت خواب کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے،خواب دیکھنے کا حق سب کو ہے لیکن کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جن کو مکمل کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، تقریروں سے کچھ نہیں ہوتا حکومت کو ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ ریاست مدینہ بنا رہے ہیں۔ لوگ اسلامی نظام کو ترس رہے ہیں، اس نظام میں عوام کم از کم دو وقت کھانا تو کھاسکیں گے۔جاوید اقبال نے کہا کہ نیب نے کچھ نہ بھی کیا ہو لیکن دو کام ضرور کئے ہیں، ایک کام یہ کیا کہ تمام اپوزیشن کو متحد کردیا جن کا نعرہ ہے کہ نیب کو ختم کرو اور دوسرا کام یہ کیا کہ نیب نے عام آدمی کی آنکھ میں امید کا چراغ روشن کیا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں