پورے پاکستان میں بجلی کے نرخ اور ایندھن سرچارج کی شرح کا تعین منصفانہ انداز میںکیا جاتا ہے ‘ مالاکنڈ ڈویژن یا کسی اور علاقے کے لئے بجلی کے نرخوں کا تعین الگ سے نہیں کیا جاسکتا‘

2025ء تک ملک میں شمسی اور ونڈ انرجی لائیں گے‘ 2030ء تک متبادل توانائی پالیسی کے تحت ملک میں 70 سے 80 فیصد توانائی اپنے وسائل سے پیدا کریں گے جس سے ملک ترقی کرے گا وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان کا قومی اسمبلی میں جواب

منگل 10 دسمبر 2019 17:51

پورے پاکستان میں بجلی کے نرخ اور ایندھن سرچارج کی شرح کا تعین منصفانہ انداز میںکیا جاتا ہے ‘ مالاکنڈ ڈویژن یا کسی اور علاقے کے لئے بجلی کے نرخوں کا تعین الگ سے نہیں کیا جاسکتا‘
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 دسمبر2019ء) قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ پورے پاکستان میں بجلی کے نرخ اور ایندھن سرچارج کی شرح کا تعین منصفانہ انداز میںکیا جاتا ہے ‘ مالاکنڈ ڈویژن یا کسی اور علاقے کے لئے بجلی کے نرخوں کا تعین الگ سے نہیں کیا جاسکتا‘ 2025ء تک ملک میں شمسی اور ونڈ انرجی لائیں گے‘ 2030ء تک متبادل توانائی پالیسی کے تحت ملک میں 70 سے 80 فیصد توانائی اپنے وسائل سے پیدا کریں گے جس سے ملک ترقی کرے گا۔

منگل کو قومی اسمبلی میں جنید اکبر خان کے مالاکنڈ ڈویژن میں چار بجلی گھروں کے ذریعے بجلی کی پیداوار ہونے کے باوجود مذکورہ ریجن کے لوگوں سے بجلی کے بلوں میں ایندھن سرچارج وصول کئے جانے سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ اس طرح تو میرے اپنے حلقے میں تربیلا اور خانپور ڈیم واقع ہیں اور غازی بروتھا نہر کا تعلق بھی میرے اپنے علاقے میں ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مالاکنڈ کا ٹیرف ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم وسائل کی تقسیم منصفانہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تربیلا ڈیم میں گرمی کے موسم میں بجلی کی پیداوار 1550 میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ سردی کے موسم میں یہ پیداوار انتہائی کم سطح پر آجاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی 300 یونٹ تک کے صارفین کو ریلیف دینے کے لئے بجلی کا ٹیرف برقرار رکھنے کے لئے 54 ارب روپے مختص کئے ہیں۔

اسی طرح ہم نے بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کے لئے نو ارب اور فاٹا کے ٹیوب ویلوں کے لئے 12 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالاکنڈ کی بجلی کی ضرورت اگر 150 یا 130 میگاواٹ سے بڑھ گئی تو فاضل بجلی وہ کہاں سے حاصل کریں گے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ اسی طرح سوات اور مردان کے علاقوں کے صارفین بجلی کے حوالے سے اپنی ضروریات کہاں سے پوری کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بناء کسی ایک علاقے کا ٹیرف کسی دوسرے علاقے سے مختلف نہیں رکھا جاتا۔کل کلاں اسلام آباد کے ارکان قومی اسمبلی یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ان کے علاقے کے لائن لاسز سب سے کم ہیں۔ وہ فیسکو ‘ گیسکو یا پیسکو کے صارفین کے مقابلے میں بجلی کے کم نرخ ادا کریں گے۔ جنید اکبر نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت وسائل پر پہلا حق متعلقہ صوبے کا ہے جو ضلع اپنی بجلی خود بناتا ہے اس کا ملک کے دیگر حصوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمارا بھی فیول سرچارج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔ وفاقی وزیر عمر ایوب خان نے کہا کہ بجلی کے نرخ کم کرنے کے لئے متبادل توانائی لا رہے ہیں۔ 2025ء تک شمسی اور ونڈ انرجی سسٹم میں شامل ہوگی۔ اسی طرح 2030ء تک متبادل توانائی پالیسی کے تحت ملک میں 70 سے 80 فیصد توانائی ہم ملک کے اپنے متبادل وسائل سے پیدا کریں گے۔ اس سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی اور ملک ترقی کرے گا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں