گیس کی فراہمی میں گھریلو صارفین پہلی ترجیح ہیں،

پچھلے دس سال میں تیل اور گیس کی تلاش کے شعبے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان کا ایوان بالا میں جواب

جمعہ 24 جنوری 2020 12:52

گیس کی فراہمی میں گھریلو صارفین پہلی ترجیح ہیں،
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جنوری2020ء) وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ ملک کو گیس کی قلت کا سامنا ہے‘ گیس کی یومیہ طلب 7.5 ارب مکعب فٹ اور پیداوار 3.5 ارب مکعب فٹ ہے‘ 1.2 ارب مکعب فٹ ایل این جی درآمد کی جارہی ہے‘ پچھلے دس سال میں تیل اور گیس کی تلاش کے شعبے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی‘ موجودہ حکومت نے آٹھ بلاکس کمپنیوں کو دے دیئے ہیں‘ 18 نئے بلاکس بھی نیلام کئے جائیں گے‘ کسی بھی صوبے سے نکلنے والی گیس پر پورے ملک کے عوام کا حق ہوتا ہے‘ سندھ کی گیس پائپ لائن بچھانے کے معاملے پر پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے سو ایم ایم سی ایف ڈی گیس ایس این جی پی ایل کے سسٹم میں شامل نہیں ہو رہی۔

ایوان بالا میں جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر سکندر میندھرو‘ نعمان وزیر‘ مشاہد اللہ خان اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر عمر ایوب خان نے کہا کہ گیس کمپنیاں ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی گیس کی فراہمی میں گھریلو صارفین پہلی ترجیح ہیں۔

(جاری ہے)

سندھ کا موقف ہے کہ گیس پر صوبے کا پہلا حق ہے جبکہ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ گیس پر پورے ملک کے عوام کا حق ہے۔

سوئی سدرن گیس کپمنی پانچ ایم ایم سی ایف ڈی گیس ایس این جی پی ایل اور ایس این جی پی ایل 248 ایم ایم سی ایف ڈی ایس ایس جی سی کو دے رہیہ ے۔ انہوں نے کہا کہ تیل گیس سمیت تمام معدنیات اور زرعی مصنوعات پورے ملک کو فراہم کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گیس کی طلب 7.5 ارب مکعب فٹ اور پیداوار 3.5 ارب مکعب فٹ ہے جبکہ 1.2 ارب مکعب فٹ ایل این جی درآمد کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں ایک گیس پائپ لائن بچھائی تھی اس کے معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ایس این جی پی ایل کے سسٹم میں شامل نہیں کی جاسکی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے امکانات کی تشریح کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوگرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے اس پر حکومت کا کنٹرول نہیں۔

قواعد کی خلاف ورزی پر شکایات موصول ہونے پر کارروائی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔ ریفائنریوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ اوگرا تیل کی قیمتیں متعین کرتی ہے۔ حکومت اس میں سبسڈی کی رقم شامل کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سال میں تیل و گیس کے شعبے میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ہم نے آٹھ بلاک دے دیئے ہیں۔ 18 نئے بلاکس نیلام کئے جائیں گے۔ ملکی پیداوار بڑھانے کے لئے ڈرلنگ کی سرگرمیاں بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تیل و گیس کے شعبے میں 15 ملکی اور 35 غیر ملکی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ایک کنوئیں پر 25 سے 30 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ غیر جدید ٹیکنالوجی لائی گئی اور افرادی قوت کو تربیت بھی حاصل ہوتی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں