جسٹس عیسیٰ ریفرنس،جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں، جسٹس منصور علی شاہ

جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے،کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی، موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے،ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے،جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے، جسٹس عمر عطاء بندیال و دیگر کے ریمارکس

منگل 28 جنوری 2020 15:57

جسٹس عیسیٰ ریفرنس،جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں، جسٹس منصور علی شاہ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جنوری2020ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججزنے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں ،جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے،کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی، موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے،ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے،جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی جہاں سندھ ہائی کورٹ کے وکیل رشید اے رضوی کے دلائل مکمل کرلیے گئے۔

(جاری ہے)

سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار کے وکیل رشید رضوی نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے ، جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گا۔

رشید اے رضوی نے کہاکہ حکومت اور ایجنسیوں کو آزاد عدلیہ کبھی پسند نہیں آتی، دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے۔ رشید رضوی نے کہاکہ پاکستان میں ججز کو ہٹانا سب سے آسان ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ کیا آپ آئین پر تنقید کر رہے ہیں ،ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آئین میں واضح ہے۔ انہوںنے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیں۔

انہوںنے کہاکہ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے۔رشید اے رضوی نے کہاکہ آرٹیکل 209 میں اپروچ میں تحفظ ہونا چاہیے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی، موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے،ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں، جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

رشید اے رضوی نے کہاکہ گلاس ہارس پر شوٹ کرنے والے شوٹرز صرف دو ہیں، ایک صدر مملکت اور دوسری سپریم جوڈیشل کونسل، ریفرنس کی سمری انکوائری بشمول جاسوسی پر مبنی ہے۔رشید اے رضوی نے کہاکہ 12 مئی 2007 سانحے پر فیصلہ جسٹس کے کے آغا نے دیا، جسٹس کے کے آغا کو بھی ریفرنس میں نشانہ بنایا گیا، وسیم اختر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ 12 مئی کو اسکی ہدایات پر کراچی میں سڑکیں بلاک ہوئیں۔

رشید اے رضوی نے کہاکہ میں نے دیوار کو کود کر ججز کو سندھ ہائیکورٹ میں جاتے دیکھا ہے، بیرسٹر فروغ نسیم 12 مئی 2007 کے مقدمہ میں ایڈووکیٹ جنرل تھے۔رشید اے رضوی نے کہاکہ اس وقت فروغ نسیم وزیر قانون ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ 3 نومبر کو آئین کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ رشید اے رضوی نے کہاکہ 3 نومبر 2007 کو وہی ہوا جو 12 مئی 2007 کو ہوا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ اب تو آئین موجود ہے۔

رشید اے رضوی نے کہاکہ یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہونے پر پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل شروع کئے اور کہاکہ اے آر یو یونٹ نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیا، فیڈرل گورنمنٹ رولز کے تحت اے آر یو یونٹ جو ایسا اختیار نہیں تھا۔

انہوںنے کہاکہ صدر مملکت سے اجازت لیے بغیر اے آر یو مواد اکھٹا نہیں کرسکتا تھا، اے آر یو کو آغاز میں یہ معلومات صدر مملکت کے سامنے رکھنی چاہیے تھیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے، جب تک قانون سازی نہ ہو تب تک طے شدہ طریقہ کار اپنانا پڑے گا۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ اعلی عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا، اے آر یو یونٹ نے انکوائری کے ذریعے ججز کے خلاف مواد تلاش کرنے کی کوشش کی۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کسی جج کے مس کنڈکٹ کا ٹیکس اتھارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ 2010 میں افتخار چودھری کیس کی گائیڈ لائینز ایکزیکٹیو پر لازم نہیں ہیں، یہ عدالت ایگزیکٹو اور جوڈیشل کونسل کے لیے حتمی گائیڈ لائینز نہیں دے گی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ طے ہے کہ ایکزیکٹیو کو ان گائیڈ لائنز کو فالو کرنا ہوگا۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر شکایت کو نہیں سنا جاتا تو پھر شکایت کنندہ کہہ سکتا ہے کہ میری حق تلفی ہے۔ سلما ن اکرم راجہ نے کہاکہ جج کا بھی ڈیو پراسس پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایک عام شہری کا ہے، یہ معاملہ عدلیہ کے وقار کا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ یہ معاملہ ٹیکس کا نہیں ہے مس کنڈکٹ کا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل ذرائع آمدن کو دیکھ رہی ہے۔ سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں