ایف بی آر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کو درست قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے اور پرال کمپنی سے ان سوالات کے جواب طلب کر لئے

جمعرات 20 فروری 2020 21:43

ایف بی آر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 فروری2020ء) سپریم کورٹ نے ایف بی آر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس میں ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کو درست قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے اور پرال کمپنی سے ان سوالات کے جواب طلب کر لئے ہیں ۔معاملہ کی سماعت چیف جسٹص گلزا راحمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر والے اپنا آئی ٹی سسٹم کیوں نہیں بناتے، ایف بی آر افسران کے پورے پورے خاندان اس کمپنی میں ملازم ہیںبتایا جائے ادارے کو پرال کے قیام سے کیا فائدہ ہوا کیا ٹیکس ریکوری میں اضافہ ہوا افسران آن لائن پاسورڈز کیساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہیبلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کیے جاتے ہیںغیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کے کئی مقدمات عدالت میں ہیںآن لائن سسٹم سے بھی دو نمبری ہی ہونی ہے تو اس کا کیا فائدہ،افسران آن لائن پاسورڈز کیساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہے، بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس موقع پر کہا کہ کیوں نہ پرال کمپنی کو ختم کرکے نیب کو تحقیقات کرنے کا حکم دے دیں۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ پرال نجی کمپنی نہیں بلکہ پبلک لمیٹیڈ ہے،کمپنی کا کام صرف سافٹ ویئر بنانا ہے ٹیکس اعدادوشمار اکٹھے کرنا نہیں،ایف بی آر پرال کو سالانہ 68 کروڑ ادا کر رہا ہے،چیئرپرسن ایف بی آر نوشین امجد نے آگاہ کیا کہ سول سروس میں تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے تکنیکی لوگ نہیں آتے،،میری تنخواہ پرال کمپنی کے جی ایم سے بھی کم ہے،جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کمپنیاں بنانے کا مقصد صرف زیادہ تنخواہیں دینا ہے،پنجاب میں بھی 56 کمپنیاں بنائی گئی ہیں جسٹس سجاد علی شاہ،،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ من پسند افراد کو کمپنی میں نوازنے پر تشویش ہے،کنٹینرز فراڈ میں ملوث افراد کیخلاف کیا کارروائی ہوئی عدالت معمالہ پر عدالت عالیہ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات پر جواب طلب کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی ہے۔

۔۔توصیف

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں