وزیر اعظم عمران خان کا ہائوسنگ اور تعمیراتی شعبہ کی سرگرمیوں میں اضافہ سے کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کی بحالی کی جانب ایک اور قدم ،

کورونا وائرس سے متاثرہ ہائوسنگ اور تعمیراتی شعبہ کو صرف 18 ماہ کے دوران کمرشل بینکوں سے مورٹگیج فنانس کے تحت 330 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے جائیں گے یہ پہلا منصوبہ ہے جس کے تحت کم اور متوسط آمدنی والے افراد اپنے گھر تعمیر کر سکیں گے ، 5تا 7 فیصد کی کم ترین شرح سود پر مورٹگیج فنانسنگ کی سہولت حاصل ہو گی، پراپرٹی ڈویلپر اور بزنس مین اعجاز گوہر

اتوار 12 جولائی 2020 17:55

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جولائی2020ء) وزیر اعظم عمران خان نے ہائوسنگ اور تعمیراتی شعبہ کی سرگرمیوں میں اضافہ سے کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کی بحالی کی جانب ایک اور قدم اٹھایا ہے جس کے تحت صرف 18 ماہ کے دوران کمرشل بینکوں سے مورٹگیج فنانس کے تحت 330 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان گزشتہ روز ہائوسنگ اینڈ کنسٹرکشن کے حوالے سے حال ہی میں بنائی گئی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں تعمیرات کے شعبہ کی بحالی کا منصوبہ منظر عام پر لائے ہیں۔

حکومت کے اقدام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک معروف پراپرٹی ڈویلپر اور بزنس مین اعجاز گوہر نے کہا ہے کہ یہ پہلا منصوبہ ہے جس کے تحت کم اور متوسط آمدنی والے افراد اپنے گھر تعمیر کر سکیں گے اور اس حوالے سے ان کو 5تا 7 فیصد کی کم ترین شرح سود پر مورٹگیج فنانسنگ کی سہولت حاصل ہو گی۔

(جاری ہے)

کمرشل بینک اپنے پورٹ فولیو کے پانچ فیصد کے مساوی رقم اس مد کے لئے مختص کریں گے اور تعمرات کی سرگرمیوں کے لئے 330 ارب روپے دستیاب ہوں گے۔

انہوں نے واضح کیاکہ ملک کے غیر روایتی اور غیر رجسٹرڈ معیشت میں 20 کھرب روپے کا سرمایہ گردش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لوگوں کے لئے بہترین موقع ہے کہ 31 دسمبر 2020ء سے قبل ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی رقم ڈکلیئر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اب 30 ہزار روپے تا ایک لاکھ روپے تک کی آمدنی والا فرد 5 فیصد شرح سود پر مورٹگیج فنانس کی سہولت حاصل کر کے 10 مرلے کا گھر تعمیر کر سکتا ہے۔

اعجاز گوہر نے مزید کہا کہ امریکا میں 82 سال قبل مورٹگیج فنانسنگ شروع کی گئی تھی تاکہ معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ گھروں کی تعمیر کے لئے حکومت 30 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرے گی۔ وزیرا عظم عمران خان نے ہائوسنگ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہر ہفتہ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ اس حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کو ختم کیا جا سکے کیونکہ پاکستان ترقی یافتہ دنیا کے مقابلہ میں مورٹگیج فنانس کے معاملہ میں بہت پیچھے ہے۔

دنیا بھر کی طرح کورونا وائرس کی وبا نے پاکستانی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے اور اس کے علاوہ بے روزگاری اور عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے تعمیرات کے شعبہ کی ترقی اور فروغ کے حکومتی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 2020ء کے آغاز پر کورونا وائرس نے دنیا بھر کے لئے شدید خطرات پیدا کئے تھے اور اب تک وائرس سے پانچ لاکھ کے قریب افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ دنیا کی بڑی معیشتوں کو کووڈ۔

19 کی وبا نے ہال کر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے عالمی شرح نمو میں کمی اور ایئر لائن، ٹریول اور سیاحت جیسے اہم شعبے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ چین جیسے مستحکم معیشت والے کئی ممالک بشمول برطانیہ ، اٹلی ، سین کو وائرس کے پھیلائو پر قابو پانے کے لئے کئی ماہ تک سخت طویل لاک ڈائون کرنا پڑا ہے تاہم پاکستان جیسے معاشی طورپر کمزور ممالک کے لئے ملکمل لاک ڈائون کی تجویز اور عمل درآمد شدید مسائل پیدا کرتا ہے کیونکہ مکک کی اکثریتی آبادی اور دیہاڑی دار مزدور طبقات لاک ڈائون سے شدید مثاثر ہوئے جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔

وزیراعظم عمران خان چین کی قائدانہ صلاحیتوں کی دنیا کرکٹ کے دنوں سے معترف ہے۔ انہوں نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالسیی پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا تاکہ ایک توازن کے تحت کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے ساتھ ساتھ معیشت کے کچھ شعبوں کو بھی کھلا رکھا جائے۔ اس حکمت پر بھرپور کام کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت معیشت کے کئی شعبے کام کر رہے ہیں اور معاشی سرگرمیاں جاری ہیں اور کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد اپنی بلندی کو چھونے کے بعد روزانہ بتدریج کم ہو رہی ہے ۔

اس وقت پاکستان میں کووڈ۔19 سے صحت مند ہونے والوں کی تعداد وائرس کے متاثرین سے زیادہ ہے اور اب تک ایک لاکھ 41 ہزار پاکستانیوں نے کورونا وائرس کو شکست دی ہے۔ کورونا وائرس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے حکومت نے 24 مارچ کو 1.2کھرب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جس پر مالی سال 2020-21ء میں بھی عمل درآمد جاری ہے۔ پاکستان کی معاشی بحالی منصوبہ کاایک اہم جزو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ کا دوسرا فیز ہے۔

مشکلات کے باوجود پاکستان اور چین نے پیش قدمی کرتے ہوئے گزشتہ دو سال سے میگا پراجیکٹ کا دوسرا فیز شروع کیا ہے۔ پہلے مرحلہ کے دوران پاسکتان بھر میں انفراسٹرکچر، سڑکوں اور توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد کے بعد 8 خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی گئی اور چین کی ایک ارب ڈالر کی مالی معاونت سے سماجی و معاشی اور انسانی ترقی کے منصوبوں کا آغاز کیاگیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سی پیک اتھارٹی قائم کی ہے اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو اس کا سربراہ تعینات کیا جو سی پیک کے تحت منصوبوں کی تکمیل کے لئے ان کی تعیناتی سے بڑی مدد ملی ہے۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنی توجہ بڑے منصوبوں پر مرکوز کر رکھی ہے جن میں گوادر(بلوچستان) تا رتوڈیرو (سندھ) ایم ۔8 موٹر وے اور 230 ملین ڈالر کا گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے منصوبے شامل ہیں۔

دیگر منصوبوں میں کراچی تا پشاور 1800 کلومیٹر طویل، مکمل محفوظ ریلوے ٹریک ، حویلیاں میں ڈرائی پورٹ کی تعمیر بڑی عداد میں لگنے والی نئی صنعتوں کے لئے بجلی کی ترسیل کا نظام اور چین سے صنعتوں کی پاکستان منتقلی کے کئی بڑے منصوبے شامل ہیں۔ ریاست مدینہ کے تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے غریب اور ضرورت مند طبقات کی مدد کے لئے فلیگ شپ احساس پروگرام شروع کیا۔

رواں سال حکومت نے احساس پروگرام کے مختلف منصوبوں کے لئے 208 ارب ورپے مختص کئے ہیں۔ احساس پروگرام وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشترکی سربراہی میں کام کررہا ہے جن کی خدمات کاعالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد حکومت نے 9 اپریل کے بعد احساس ایمرجنسی کیش ٹرانسفر پروگرام کے تحت 194 ارب روپے تقسیم کئے ہیں۔

پروگرام کے تحت دیہاڑی دار مزدور طبقہ کی فی خاندان 12 ہزار روپے کی نقد امداد دی جا رہی ہے۔ وفاقی ویزر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کے مطابق نقد امداد کی رقم مستحقین، ضرورت مندوں اور وائرس سے زیادہ متاثر طبقات میں بغیر کسی سیاسی تفریق کے تقسیم کی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد لاک ڈائون کے نفاذ کے بعد مستحق طبقات کو نقد مالی امداد فراہم کی گئی ۔

رواں ہفتہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کیش ٹرانسفر پروگرام کے دوسرے مرحلہ میں وبا سے شدید متاثر افارد میں رقوم کی تقسیم کے لئے فوری اقدامات کو یقینی بنایا جا رہاہے۔پی ٹی آئی کی حکومت ایک اور انقلابی اقدام کفایت شعاری ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے غیر ضروری اخراجات کے خاتمہ سے اربوں روپے کی بچت کی ہے اور کفایت شعاری مہم کے تحت وزیر اعظم کے گھر اور دفتر کے اخراجات میں بھی نمایاں کمی لائی گئی ہے۔

اس کے علاوہ سپلیمنٹری گرانٹس کے اجراء میں بھی قابل قدر کمی کی گئی ہے اور خصوصی فنڈز کے اخراجات بھی کم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت محکموں کے اخراجات بھی کم کئے گئے ہیں اور کسی کو بھی بغیر میرٹ اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتی نہیں کیا گیا۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں پر نہ صرف بہترین مواقع دستیاب ہیں تاہم سکیورٹی کے شدید مسائل کا بھی سامنا ہے۔

اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کو برقرار رکھنے کی ریاست کی واضح پالیسی کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن یہ موقع دوسری جانب سے گنوا دیا گیا اور مودی ہندتوا کے نظریہ پر آگے بڑھتا چلا گیا اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ غیر مناسب رویہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جاری رہا۔

5 اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے انتہا پسندانہ اقدام کے بعد پاکستان نے بھی اپنے مؤقف میں سختی کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادون کی روشنی میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی پر امن جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہو کر بھر پور حمایت کا عمل جاری رکھا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مودی کے پرتشدد اور سفاکانہ اقدامات کے خلاف واضح مؤقف اپنایا اور مودی حکومت کے نظام کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں خصوصی مہم کے تحت مسئلہ کشمیر پر پوری قوم کو متحد کیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ان کے خطاب نے کئی دہائیوں سے جاری تنازعہ کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو واضح کیا۔ ان کے خطاب کی عالمی سطح پربھرپور پذیرائی ہوئی اور دنیا کو یہ پیغام گیا کہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل امن ایک خواب ہی رہے گا اور پورے خطہ پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھا اور ریاست کے علاقائی امن، سلامتی اور خوشحالی کے سٹریٹیجک مقاصد کے تحت چین، افغانستان اور ایران سے بامقصد اور مثبت تعلقات کو فروغ دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں حکومت نے اپنے دو سالہ اقتدار کے دوران ناقابل تردید کامیابی حاصل کی اور حکومت نے بد عنوانی، بد انتظامی اور نااہلیت کی بنیاد پر قائم دہائیوں پرانے روایتی سیاسی نظام کی بنیادیں ہلا دیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے قیام کے بعد مختلف مسائل کا خاتمہ کیا اور ملک کے اداروں کو ماضی کی حکومتوں کی نااہلیت اور بد انتظامی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو ختم کیا اور ملک میں دو جماعتوں سیاسینظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ملک کو پرعزم اور متحرک قیادت کی ضرورت تھی اور وزیراعظم عمران خان نے قومی فرض کی بھرپور ادائیگی کرتے ہوئے مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔

وہ کرپشن اور مافیاز کے خاتمہ کے نعرہ پر اقتدار میں آئے کیونکہ کرپشن اور مافیاز معیشت کے بہت سے شعبوں میں گھسے ہوئے تھے۔ انہوں نے مافیاز کا پیچھا کیا اور ان کا قلع قمع کیا۔ 2018ء الیکشن جیتنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو ایک غیرمستحکم معیشت ورثے میں ملی اور اقتصادی محاذ پر حکومت کی کئی کامیابیاں بعدازاں کورونا وائرس سے متاثر ہوئیں، تاہم حال ہی میں عالمی مالیاتی فنڈ سے جاری تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2021ء مرحلہ وار اقتصادی بحالی متوقع ہے۔

کورونا وائرس سے شدید متاثر مختلف معاشی شعبہ جات کی بحالی کا عمل شروع ہے۔ پاکستان قدرتی مناظر سے مالا مال ملک ہے جہاں پر برف سے ڈھکے بلند و بالا پہاڑ، سرسبز وادیاں، میڈوز اور تیز بہائو والے دریائوں سے بلند و بالا شمالی علاقہ جات کے حسن میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ مزید برآں پاکستان کے وسیع میدانی علاقے، جنگل، صحرا اور جنوب میں بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ طویل ساحل اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دورن پاکستان نے دہشتگردی اور بدامنی کو شکست دی ہے جس سے سیاحت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور سیاحوں کی آمدورفت میں 300فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے غیرملکی سیاحوں کی سہولت کیلئے 175ممالک کیلئے آن لائن ویزا سروس شروع کی ہے اور 50ممالک کے شہریوں کو ویزہ آن ارائیول کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

ویزہ کے حصول کیلئے مطلوبہ شرائط میں نرمی اور سیکیورٹی کی بہتر صورتحال سے سال 2019ء کے دوران پاکستان کے سیاحتی مقامات پر 6.6ملین سیاح پہنچے ہیں۔ کئی معروف بین الاقوامی سیاحتی میگزین نے کورونا وباء سے قبل 2020ء کیلئے پاکستان کو سیاحت کے حوالے سے بہترین اور پرکشش ملک قرار دیا تھا لیکن کامیابی کی اس داستان اور پاکستان کے استحکام اور شرح نمو کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل تاریخ ہے، پاکستان کی مسلح افواج نے ایک دہائی سے طویل عرصہ کی جدوجہد کے بعد بدامنی اور دہشتگردی کو شکست دی ہے اور بالخصوص مغربی سرحد پر امن و امان کی بحالی سے شہریوں کوتحفظ کا احساس ہوا ہے۔

مسلح افواج کی جانب سے ملک کے وسیع تر مفاد میں تحفظ، سلامتی اور امن و امان کے قیام کے عزم کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان نے منفی افواہوں کی پرواہ کیے بغیر نئے پاکستان کی راہ پر اپنا سفر جاری رکھا جس میں معاشی مواقع اور ہر شہری کی مجموعی خوشحالی کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے ملک کے مالی اور ادارہ جاتی نقصانات کے ذمہ داروں کی خودغرضی اور سیاسی مقاصد کے حصول کی رکاوٹوں کے باوجود نئے پاکستان کی راہ پر اپنا سفر جاری رکھا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں