ہائی کورٹ کا مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو لاقانونیت اور بڑھتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم

ریاست کی رٹ کہیں نہیں، سارا نظام کرپٹ ہو چکا ہے، اسلام آباد میں مفادات کے ٹکراؤ کے علاوہ کچھ نہیں،وزیر اعظم کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ عام لوگ کیسے متاثر ہو رہے ہیں، چیف جسٹس اطہرمن اللہ

پیر 21 ستمبر 2020 17:46

ہائی کورٹ کا مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو لاقانونیت اور بڑھتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 ستمبر2020ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو اسلام آباد میں لاقانونیت اور بڑھتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے جبکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی رٹ کہیں نہیں، سارا نظام کرپٹ ہو چکا ہے، اسلام آباد میں مفادات کے ٹکراؤ کے علاوہ کچھ نہیں،وزیر اعظم کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ عام لوگ کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔

پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایس ای سی پی کے ساجد گوندل کی بازیابی کے حوالے سے درخواست پر سماعت کی۔ مشیر داخلہ شہزاد اکبر، چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی اسلام آباد اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر سے استفسار کیا کہ شہزاد اکبر صاحب، کیا آپکو معلوم ہے کہ آپکو عدالت نے کیوں طلب کیا ہی سارا نظام کرپٹ ہو چکا ہے اور یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔

عدالت کے سامنے آیا ہے کہ ریاست کی رٹ کہیں نہیں۔ پولیس کے تفتیشی افسران تربیت یافتہ نہیں، اور یہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر اثرانداز ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مفادات کا ٹکراؤ ہر جگہ نظر آ رہا ہے اور اسلام آباد میں اسکی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ اسلام آباد کو ماڈل شہر ہونا چاہیے تاہم یہاں پراسیکیوشن برانچ تک نہیں، ڈسٹرکٹ کورٹ جاکر حال دیکھیں عدالتیں غیرانسانی حالت میں چل رہی ہیں۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹس دوکانوں میں لگی ہیں۔ اسلام آباد میں صرف ایلیٹ کی خدمت کی جا رہی ہے اور یہ ریاست کی ترجیحات بتاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وزیراعظم کے مشیر ہیں اور وزارت کے انچارج ہیں جو اسلام آباد کو کنٹرول کرتی ہے،آپ اپنی مہارت سے ان چیزوں کا حل نکالیں اور ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔ وزیراعظم کو بتائیں کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

حکومت کی پولیٹیکل وِل ہی ان معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔ شہزاد اکبر نے موقف اختیار کیا کہ میں خود گمشدگیوں کے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہوتا رہا ہوں اور یہ کیس میرے قریب ہے۔ جیسے ہی یہ معاملہ وزیراعظم کے علم میں آیا انہوں نے اسکا نوٹس لیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کی جانب سے اس معاملے پر کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔کمیٹی نے ایک ہفتے کے اندر پورے ملک سے گمشدگی کے کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک تفتیشی کو تفتیش کیلئے تین سو روپے ملیں تو وہ باقی کہاں سے لائے گا یہ کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مفادات کا ٹکراؤ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، وزارت داخلہ خود ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہے۔ وزیر اعظم کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ عام لوگ کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایلیٹ کلچر اپنے اختتام کو پہنچ چکا، بات ختم۔ عدالت نے مشیر داخلہ کو تین ہفتوں میں مفصل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں