اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفتر خارجہ سے لندن میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی

ہم مفروضوں پر نہیں جاسکتے، ہم نے خود کو مطمئن کرنا ہوتا ہے،(کل)تک عدالت کو بتایا جائے کہ عدالتی احکامات موصول ہوچکا کہ نہیں نواز شریف کی عدالت میں حاضری یقینی بنانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، عدالت کے ریمارکس

منگل 22 ستمبر 2020 18:23

اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفتر خارجہ سے لندن میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2020ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفتر خارجہ سے لندن میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی جبکہ عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم مفروضوں پر نہیں جاسکتے، ہم نے خود کو مطمئن کرنا ہوتا ہے،(آج) بدھ تک عدالت کو بتایا جائے کہ عدالتی احکامات موصول ہوچکا کہ نہیں نواز شریف کی عدالت میں حاضری یقینی بنانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے نواز شریف کی اپیلوں کے حوالے سے سماعت کی۔دوران سماعت نواز شریف کے وکلاء خواجہ حارث اور زبیر خالد پیش نہ ہوسکے، نواز شریف کی جانب سے منور اقبال دگل عدالت میں پیش ہوئے،نیب کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ، ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل سردار مظفر عدالت کے روبرو پیش ہوئے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت میں وفاق کی نمائندگی کی۔

(جاری ہے)

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا گیا، نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری لندن میں پاکستان کے ہائی کمیشن کو بھیجے، لندن ہائی کمیشن نے 18 ستمبر کو ہی ایون فیلڈ لندن کے پتے پر نواز شریف کو عدالتی احکامات ارسال کئے،نواز شریف کی وارنٹ گرفتاری حسن نواز شریف نے وصول کیے، ہائی کمیشن نے معاملے کو برطانوی وزارت خارجہ کو بھیج دیا،یہ معاملہ کاؤنٹی کورٹ میں چلا جائیگا اور پھر وہ اپنے فیصلے سے وزارت خارجہ کو آگاہ کریں گے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت حکم دے گی تو نواز شریف کی حوالگی کی کارروائی کریں گے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ گیا انہوں نے آرڈر کیا،وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیے بغیر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا، آپ نے ایک سزا یافتہ مجرم کو بغیر پوچھے اس عدالت سے جہاں اسکی اپیل ہے آپ نے باہر بھیج دیا،کیا یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں جنہوں نے نواز شریف کو جانے کی اجازت دی کیا آپ نے نام ای سی ایل سے نکالتے وقت وزارت قانون سے کوئی رائے نہیں لی لاہور ہائیکورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا، انہوں نے تو طریقہ کار طے کیا، جب وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام نکالا تھا تو عدالت کو آگاہ کرنا چاہیے تھا، اہم کام تو نواز شریف کی اپیل پر فیصلہ کرنا ہے تاہم ہم انکی حاضری پر رکے ہوئے ہیں۔

اب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نواز شریف کی حاضری یقینی بنائے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے موقف اپنایا کہ کامن ویلتھ آفس کو جب معاملہ بھیجا گیا تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہاں کتنا وقت لگے گا، معاملہ پھر کاؤنٹی کورٹ جائیگا تو کتنا وقت لے گا۔ا نہوںنے کہاکہ وزارت خارجہ عدالتی احکامات کی ڈاکیومنٹس کو کب تک ریکارڈ کا حصہ بناسکتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ملزم اگر کسی موقع پر پاکستان آ جاتا ہے اور ہم اپیل کا فیصلہ کر چکے ہوں تو اسکے اثرات کیا ہونگی پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ طریقہ کار پر مکمل طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،پاکستانی ہائی کمیشن لندن کے ذریعے لندن کی کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو وارنٹ بھیجے جانے ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ایک شخص پہلے ہی ایک کیس میں اشتہاری قرار دیا جا چکا تو دوسرے کیس میں بھی اشتہاری قرار دیا جا سکتا ہی نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ تمام طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد بھی ملزم کا عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر الگ سے کیس بنتا ہے،وارنٹ گرفتاری کے بعد اشتہاری دینے کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم مفروضوں پر نہیں جاسکتے، ہم نے خود کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ(آج)بدھ تک عدالت کو بتائے کہ عدالتی احکامات موصول ہوچکا کہ نہیں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں کونسلر عبدالحنان کو عدالت طلب کیا جائے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اتاشی عبدالحنان کا بیان ہم ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ عدالت نے دفتر خارجہ سے وارنٹ کی تعمیل کی کارروائی میں وقت سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں