ڈینیئل پرل قتل کیس ، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی

پیر 28 ستمبر 2020 20:11

ڈینیئل پرل قتل کیس ، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 ستمبر2020ء) سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عظمی نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ ڈینیئل پرل قتل کیس میں ملوث ملزمان کو آئندہ ہفتے تک رہا نہ کیا جائے۔ پیر کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے صرف اغواء کے جرم میں سندھ ہائی کورٹ نے سزا دیکر حجت تمام کی، ڈینیئل پرل کے اہلخانہ کیساتھ ہمدردی ہے لیکن فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا،حکومتی کیس کی بنیاد ہی ٹیکسی ڈرائیور کا بیان ہے، ڈینیئل پرل کی تو لاش بھی نہیں ملی، ٹیکسی ڈرائیور نے اسے کیسے پہچانا دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو دو باتیں بتانا چاہتے ہیں،مفروضوں پر بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیں گے ،آپ نے پورے کیس کی کڑیاں جوڑنی ہیں،ایک بھی کڑی ٹوٹ گئی تو آپکا کیس ختم ہو جائے گا ، واقعاتی شواہد کیلئے بھی تمام کڑیوں کا آپس میں ملنا لازمی ہے، مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو کس نے دیکھا اور پہچانا استغاثہ نے پورے کیس کی کڑیاں جوڑنی ہیں،سازش، تاوان اور دیگر تمام الزامات میں ملزمان بری ہوئے،اعتراف جرم ریکارڈ سے ثابت کرنا ہوگا،جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ سازش کہاں ہوئی,ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔

(جاری ہے)

جس پر سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ عامر افضل نے بھی احمد عمر شیخ اور ڈینیئل پرل کی ملاقات کی تصدیق کی، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ آپکے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سازش سے متعلق آپکے پاس کوئی جواب نہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے قتل کا فیصلہ قتل کرنے سے ایک لمحہ پہلے ہوا ہو۔ سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ شناخت پریڈ میں ٹیکسی ڈرائیور نے احمد عمر شیخ کو پہچانا،ٹیکسی ڈرائیور نے تصاویر دیکھ کر ڈینیئل پرل کو پہچانا،23جنوری 2002 کو ایک ای میل کی گئی,ای میل میں ڈینیئل پرل کے اغوا برائے تاوان کا ذکر موجود ہے، ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس نے مجسٹریٹ کے سامنے شناخت پریڈ میں ملزمان کی شناخت کی، ملزم احمد عمر شیخ کو 13فروری 2002 کو گرفتار کیا گیا۔

22اپریل 2002ء کو ملزمان پر چارج فریم ہوا، مقدمے کے ایک گواہ آصف محفوظ نے راولپنڈی کے اکبر انٹرنیشنل ہوٹل میں ڈینیئل پرل اور عمر شیخ کی ملاقات کرائی۔ ہوٹل کے ریسپشنسٹ عامر افضل نے عمر شیخ کو شناخت پریڈ میں پہچانا،بہت سی چیزیں پس پردہ بھی چل رہی تھیں،عمر شیخ جب ڈینیئل پرل سے ملا تو اپنا نام بشیر بتایا،عمر شیخ نے پہلی ملاقات میں نام اس لیے غلط بتایا کیونکہ اسکے ذہن میں کچھ غلط چل رہا تھا،مقدمے میں کل 23 گواہ ہیں،یہ درست ہے پہلی سازش قتل نہیں بلکہ تاوان لینا تھا، احمد عمر شیخ نے عدالت میں اعتراف جرم بھی کیا،عمر شیخ نے خود کلامی کے انداز میں عدالت میں جرم تسلیم کیا تھا، وکیل لطیف کھوسہ نے خود کلامی کے حوالے سے رومیو جیو لیٹ افسانے کا حوالہ بھی دیا۔

جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ کسی رومانوی افسانے کی بنیاد پر قتل کیسز کے فیصلے نہیں ہوتے۔ سماعت کے دوران ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دئیے کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اس کیس کے تمام فریقین نے اپیل دائر کر رکھی ہے،عدالت عالیہ نے احمد عمر شیخ کو چارجز میں بری بھی کیا اور سزاء بھی دی، ہم ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی بحالی چاہتے ہیں،شواہد بتا رہے ہیں کہ اغواء تاوان کی غرض سے کیا گیا،عدالت کا سازش کے عنصر سے متعلق استفسار درست ہے،کیس کے 2 ملزمان کے اقبالی بیانات میں بھی سازش ثابت ہوتی ہے،یہ بیان ازخود سازش کی وضاحت کر رہے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں