جسٹس فائز کیخلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرارنہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ

ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا فیصلوں کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا آئینی و قانونی حق ہے جب کہ ایسی کوئی شق نہیں کہ ججز کیخلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے ، 224 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری

جمعہ 23 اکتوبر 2020 21:54

جسٹس فائز کیخلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرارنہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اکتوبر2020ء) سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ان کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جو 224 صفحات پر مشتمل ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا، ان کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں کو بدنیتی کے شواہد کے طور ہر پیش نہیں کیا جا سکتا، فیصلوں کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا آئینی و قانونی حق ہے جب کہ ایسی کوئی شق نہیں کہ ججز کیخلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے۔

(جاری ہے)

عدالت نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس میں نقائص کا جائزہ نہیں لیا، جج کے خلاف تحقیقات کیلئے وزیراعظم کی منظوری نہیں لی گئی، صدر نے ریفرنس پر کسی تھرڈ پارٹی سے رائے نہیں لی، نقائص سے بھرپور ریفرنس بھیجا گیا، جج کے خلاف تحقیقات کیلئے وزیر قانون سے اجازت لینا قانون کے مطابق نہیں، ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس جاری کرکے جواب نہیں لیا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس اہلیہ جسٹس عیسی کی غیر ظاہر شدہ لندن جائیدادوں پر بنایا گیا، لندن جائیدادوں کی ملکیت کی وجہ سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا، کونسل نے ماضی میں ایک جج کی غیر ملکی جائیدادوں پو نوٹس لیا، کونسل نے اس جج کے خلاف کاروائی شروع کی تو وہ استعفی دے گئے، حکومت نے سندھ ہائیکورٹ کے جج کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا، حکومت کی جانب سے صدارتی ریفرنس کا بد نیتی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایف بی آر کی رپورٹ پر کاروائی کونسل کیلئے لازم نہیں، کونسل ایف بی آر کی رپورٹ کا جائزہ لے کر جج کے کنڈکٹ کا فیصلہ از خود کرے گی اور کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی، ایف بی آر کی جانب کونسل کو آنے والی رپورٹ صرف معلومات کی حیثیت رکھے گی۔ عدالت نے جسٹس فائز عیسی کی شہزاد اکبر کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسی نے شہزاد اکبر کی تعیناتی کو الگ سے چیلنج نہیں کیا اور جسٹس فائز عیسی نے فون ٹیپ کرنے کا کوئی الزام نہیں لگایا، موجودہ کیس میں شہزاد اکبر کی تعیناتی غیرقانونی قرار نہیں دی جا سکتی، معاون خصوصی کا عہدہ سیاسی، تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا کہ ججز کا احتساب ایک جمہوری اور بیدار معاشرے کی ضرورت ہے، عدلیہ کی آزادی اس کی خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں سے متاثر نہیں ہوتی، بلاتعصب، بلا تفریق اور منصفانہ احتساب آزاد عدلیہ کو مضبوط کرتا ہے، بلا تفریق احتساب سے عوام کا عدالتوں پر اعتبار بڑھے گا۔تفصیلی فیصلے کے مطابق ریفرنس آئین اور قانون کے خلاف دائر کیا گیا، صدارتی ریفرنس اور عام آدمی کی شکایت کے معیار میں فرق یقینی ہے، صدر مملکت کے ماتحت پوری وفاقی حکومت اور سرکاری ادارے ہوتے ہیں، صدر کی جانب سے نقائص سے بھرپور ریفرنس عدلیہ کیلئے نقصان دہ ہے۔

عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر لگائے گئے الزامات کو لندن جائدادوں کی خریداری کے ذرائع آمدن ظاہر کر کے عوام کے ذہن سے شک کو صاف کیا جا سکتا ہے، فیصلہ 209 کو عدالتی مداخلت سے غیر فعال کیا گیا تو یہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں سے ختم ہو جائے گا۔اس سے قبل جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کی تھی اور کیس کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں