سینیٹر ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس ، 2 آرڈیننسزکی منظوری

جمعرات 26 نومبر 2020 23:07

سینیٹر ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس ، 2 آرڈیننسزکی منظوری
اسلام آباد۔26نومبر  (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26نومبر2020ء) :تحریک انصاف کی قیادت میں حکومت پاکستان خواتین اور بچوں کے خلاف زیادتی اور دیگر جنسی جرائم کے تدارک کےلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ تاریخی قانون سازی کرنے جارہی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس، اسلام آباد میں ہوا جس میں 2 آرڈیننسزکی منظوری دی گئی۔

ان آرڈیننسزکی وفاقی کابینہ پہلے ہی اصولی منظوری دے چکی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں قانونی سازی کے حوالے سے اہم موقع ہے کہ جب خواتین  لڑکیوں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے قانون سازی کےلئے عملی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے قانون سازی کےلئے وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک ماہ تک مسلسل دن رات کام کیا۔

(جاری ہے)

قانون سازی کے عمل میں پارلیمانی سیکرٹری بیرسٹر ملائیکہ بخاری، سیکرٹری قانون راجہ نعیم اکبر اور ”اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن و ٹرائل) آرڈیننس 2020“ اور ”کریمنل لاء(ترمیمی) آرڈیننس 2020“ کو حتمی شکل دینے کےلئے کنسلٹنٹ بیرسٹر عنبرین عباسی نے معاونت کی۔ دونوں قوانین پاکستان کے عالمی سطح پر کئے گئے عہد کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے بھی عین مطابق ہیں۔

یہ قوانین خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی اور جنسی استحصال جیسے ظالمانہ جرائم کی روک تھام کےلئے طریقہ کار وضع کرتے ہیں۔”اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن و ٹرائل) آرڈیننس 2020“کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں خصوصی عدالتوں کا قیام،ایف آئی آرکا اندراج، طبی معائنے اور فرانزک تجزیئے کےلئے کمشنر/ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں ”اینٹی ریپ کرائسزسیلز“ کا قیام،طبی معائنہ کے دوران عصمت دری کا شکار افراد کے کنوارہ پن کی غیر انسانی طریقے سے جانچ پڑتال یا متاثرہ کا کسی بھی قسم کے امکانی تعلق ظاہر ہونے کی شرائط کا خاتمہ ہیں،ملزم کے ذریعے زیادتی کا نشانہ بننے والے شخص کی جرح پر پابندی ہوگی۔

اس طرح جرح کی اجازت صرف متعلقہ جج یا ملزم کے وکیل کو ہو گی۔عدالتی کارروائی ”اِن کیمرہ “ ہو گی۔زیادتی کا شکار افراد کے گواہ اور مقدمہ کے گواہان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔مقدمات کی تفتیش اور کارروائی کے دوران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بناناشامل ہے ۔متاثرہ شخص کو مجاز حکام کے ذریعے قانونی معاونت اور اعانت کی فراہمی،متاثرین کی مدد کےلئے خود مختار مشیروںکی تشکیل،خصوصی عدالتوں کےلئے خصوصی پراسیکیوٹرز کی تعیناتی،ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیوں کی تشکیل اورمقدمے پرآئین کی مکمل عملداری کی دیکھ بھال کےلئے خصوصی کمیٹی کی تشکیل شامل ہے۔

وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں خصوصی کمیٹی کی جانب سے طبی قانونی جانچ پڑتال، تفتیش اور استغاثہ کےلئے رہنمائی فراہم کرنے کے عمل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنانا،جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کے ڈیٹا کا اندراج نادرا کے ذریعے کروانا،خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم جیسی لعنت کی روک تھام کےلئے عوامی حمایت کے حصول کےلئے ”پبلک رپورٹنگ میکنزم“ کا قیام بھی آ رڈیننس کا حصہ ہے۔

دوسرا دستاویزی آرڈیننس ”کریمنل لاء(ترمیمی) آرڈیننس 2020“ کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں تعزیرات پاکستان کی شق 375 کی تشریح متبادل لفظ ”ریپ“ کے ساتھ کی گئی ہے جس میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کےلئے عمر کی حد ختم جبکہ مرد کےلئے زیادہ سے زیادہ عمر 18 سال تصور کی جائے گی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں