عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ‘پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد متاثرہ ممالک میں ٹاپ5میں آگیا

موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہوا ہے بلکہ گرمی بڑھنے کی وجہ سے یا تو فصلیں وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھر گرمی سے تباہ ہو رہی ہیں.رپورٹ میں انکشاف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 4 دسمبر 2020 11:04

عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ‘پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد متاثرہ ممالک میں ٹاپ5میں آگیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 دسمبر ۔2020ء) عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرو لوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث لاک ڈاﺅن کے باوجود موسمیاتی تغیر کا عمل نہیں رکا بلکہ کم و بیش اسی تیزی سے جاری ہے. اسٹیٹ آف گلوبل کلائمیٹ 2020 کی عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 سے 2020 کے درمیان آنے والے 10 سال تک ریکارڈ کیے جانے والے درجہ حرارت کے اعداد و شمار کے مطابق یہ سب سے زیادہ گرم رہنے والی دہائی ہے اس دہائی کے بھی سب سے زیادہ گرم ترین سال 2015 سے 2020 کے درمیان ہی ثابت ہوئے ہیں.

(جاری ہے)

سائنس دانوں کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2016، سال 2019 اور پھر رواں سال درجہ حرارت ریکارڈ رکھنے کی 170 سالہ عالمی تاریخ کے تین گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں ”گلوبل کلائمیٹ رسک“ کی فہرست میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کے علاوہ خوارک کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس سے قبل پاکستان اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھا.

ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال میں ملک کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اسے شدید معاشی بحران سے بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہونے سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اور پانی کی کمی سر اٹھا رہی ہے جبکہ دوسری جانب گرمی بڑھنے کی وجہ سے یا تو فصلیں وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھر گرمی سے وہ تباہ ہو رہی ہیں.

اس صورتحال میں جلدی تیار ہونے والی فصلوں پر حشرات کے حملوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور حال ہی میں ٹڈی دل جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں فصلوں پر حملہ آور ہو چکا ہے اس کے علاوہ بے وقت بارشوں سے بھی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور غیر معمولی بارشیں بھی فصلوں کی تباہی کا موجب بن رہی ہیں چاول اور گنے کی فصلیں جن میں پانی کی بے تحاشا ضرورت ہوتی ہے یہ فصلیں پانی کی کمی کی صورت میں کیسے بہتر اگ سکیں گی؟یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوارک اور اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے.

ادھر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے سے سمندر میں جذب ہونے والی توانائی اور حدت میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے اور کرہ ارض پر پائے جانے والے سمندروں کے 80 فی صد حصے نے رواں سال ”میرین ہیٹ ویو“ کا سامنا کیا ہے اس ہیٹ ویو سے آبی حیات اور آبی ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے کے باعث پہلے ہی بہت زیادہ تیزابیت کا شکار ہے کئی عالمی تنظیموں اور ماہرین کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق شدید گرمی کی لہر، جنگلوں میں لگنے والی آگ، سیلاب اور بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ انسانی صحت، تحفظ اور پھر کورونا وبا سے معاشی استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں.

رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے پیش نظر لاک ڈاﺅن کے باوجود ماحول میں گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج میں اضافے کا رحجان برقرار رہا جس سے آنے والی نسلوں کے لیے زمین زیادہ گرم ہونے کا سلسلہ جاری ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین ہاﺅس گیسز جو ماحولیاتی درجہ حرارت بڑھانے اور شدید موسمی تبدیلیوں کی اصل وجہ قرار دی جاتی ہیں ان کا اخراج کورونا وبا کے دوران صنعتی پہیہ سست ہونے کے باوجود کوئی خاص کم نہیں ہوا.

ان حقائق کی بنیاد پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی ترقی کے دور سے قبل یعنی 1850 سے 1900 کے دوران ریکارڈ کیے گئے درجہ حرارت کے مقابلے میں 2020 میں اوسط عالمی درجہ حرارت 1.2 سینٹی گریڈ بڑھا ہے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ 2024 تک یہ درجہ حرارت اس معیار سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا. سائنس دان اس ریکارڈ گرمی کے سال کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سال بحر اوقیانوس اور اس کے اردگر آباد ممالک میں شدید درجہ حرارت نوٹ کیے گئے اسی طرح سائبیریا سے لے کر آسٹریلیا اور پھر امریکہ کے مغربی ساحل اور جنوبی امریکہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا.

گرم موسم کے سب سے زیادہ اثرات شمالی ایشیا میں نمایاں نظر آئے ہیں خاص طور پر سائبیریا کے علاقوں میں جہاں درجہ حرارت اوسط سے 5 سینٹی گریڈ اوپر ریکارڈ کیا گیارپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحر منجمد شمالی کے برف سے ڈھکے حصے کا رقبہ 42 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے برف سے ڈھکے اس سمندر میں جولائی سے اکتوبر 2020 کے دوران برف تاریخ کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی اسی طرح دنیا میں سطح سمندر کی بلندی میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے رپورٹ میں دنیا بھر خصوصاََ جنوبی ایشیا کے ممالک میں آنے والے سیلابوں کو بھی موسمی تغیرات سے تعبیر کیا گیا ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1994 کے بعد بھارت میں رواں سال سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ پاکستان میں بھی اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی خطوں میں گرمی میں اضافہ ہوا جس سے قحط اور غذائی قلت کے خطرات بڑھ گئے یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں طوفانوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباََ ایک کروڑ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے جن میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تھا.

پاکستان کے شعبہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل محمد ریاض بلند عالمی درجہ حرارت کو موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں محمد ریاض کے مطابق گرین ہاﺅس گیسز بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن گیسز کا مسلسل بڑھتا ہوا اخراج، آبادی میں اضافہ اور قدرتی عمل میں بے جا انسانی دخل اندازی معاملے کو گھمبیر بنا رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ تو گرین ہاوسز گیسز کا اخراج ہے اور دوسری جانب جنگلات کی کٹائی تیزی سے جاری ہے اس وجہ سے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو بارشوں کا نظام متاثر ہوتا ہے ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ غیر پائیدار صنعت کاری ہے.

اگرچہ دنیا میں ماحولیاتی بقا کے لیے اہم سمجھے جانے والے معاہدے پیرس ایگریمنٹ آن کلائمٹ چینج کی پانچویں سالگرہ منائی جا رہی ہے لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت دنیا بھر سے گرین ہاﺅس گیسز کا اخراج کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں اب تک بہت کم مثبت ثابت ہوئی ہیں ان کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب امریکہ نے اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا.

معاہدے کا مقصد رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے اور پھر عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک لے جانے کے لیے اقدامات کرنا ہے واضح رہے کہ چین کے بعد امریکہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے والا ملک ہے. پیرس معاہدے سے خائف ریاستوں کا موقف یہ ہے کہ اگر معاعدے پر عمل درآمد کیا گیا تو ان کی صنعتی ترقی کا پہیہ رک جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ صنعتی ممالک کی ترقی کا خمیازہ سب سے زیادہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے.

صنعتی ترقی میں آگے ممالک ہی سب سے زیادہ گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کا باعث ہیں یہ ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ ایک جانب دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کریں اور دوسری جانب غریب ممالک کو اس کے اثرات سے بچاﺅ کے لیے مناسب سبسڈی فراہم کریں.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں