نوازشریف اپنے علاج کے ساتھ نا اہل ٹولے کا بھی علاج کریں ،رانا ثناء اللہ

آٹھ دسمبر کو پی ڈی ایم کی سربراہی کا اجلاس ہوگا ،لاہور جلسے سے گرفتاریاں ہوئیں تو سنجیدہ نتائج ہونگے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ، میڈیا سے گفتگو

جمعہ 4 دسمبر 2020 18:42

نوازشریف اپنے علاج کے ساتھ نا اہل ٹولے کا بھی علاج کریں ،رانا ثناء اللہ
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 دسمبر2020ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نوازشریف اپنے علاج کے ساتھ نا اہل ٹولے کا بھی علاج کریں ، آٹھ دسمبر کو پی ڈی ایم کی سربراہی کا اجلاس ہوگا ،لاہور جلسے سے گرفتاریاں ہوئیں تو سنجیدہ نتائج ہونگے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ جمعہ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 30 نومبر کو ڈپٹی کمشنر نے جو کام کیا وہ ایک سول آفیسر کے شایان شان نہیں تھا، انہوں نے لوگوں کو بے جا پکڑا، مقدمات درج کروائے اور 30 دن کے لیے نظر بند کیا۔

انہوکںنے کہاکہ مجھے معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ سے ان کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے ہیں لہٰذا میرا ڈپٹی کمشنر سے یہ مطالبہ ہے کہ ان لوگوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور آپ ایک سول آفیسر کے طور پر اپنا کام کریں، حکومتیں آنی جانی چیز ہیں، کسی حکومت کی وفاداری میں آپ کو اتنا آگے نہیں بڑھنا چاہیے کہ آپ ظلم کریں اور بے جا مقدمات درج کریں۔

(جاری ہے)

پنجاب کے سابق وزیر قانون نے کہا کہ دو ایف آئی آر کی کاپیاں میرے پاس موجود ہیں جو انہوں نے مختلف لوگوں کے خلاف اس لیے درج کی ہیں کہ وہ پبلسٹی کررہے تھے تاکہ بہت زیادہ لوگ جمع ہو جائیں گے۔انہوںنے وفاقی وزراء پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ حکومتی وزراء کہتے ہیں عوام نے بائیکاٹ کردیا ہے اور تیسری طرف یہ اندازے سے مقدمے درج کررہے ہیں کہ یہ پبلسٹی ہو گی تو یہاں بہت زیادہ تعداد میں لوگ آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے اس رویے کی ذمے داری انتظامیہ پر تو نہیں ہے، یہ بنی گالا میں بیٹھے لوگ ساری حرکتیں کررہے اور کروا رہے ہیں تاہم انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ غیرجانبدار رہے اور وہ کوئی ایسا عمل نہ کرے جس کی وجہ سے حالات خرابی یا تصادم کی طرف جائیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملتان میں اگر انتظامیہ نے کریک ڈاؤن کیا تو جلسہ ناکام تو نہیں ہوا بلکہ پورے ملتان میں جلسہ ہوا اور شاہ رکن عالم انٹرچینج سے ملتان گھنٹہ گھر چوک تک 13 کلومیٹر کا راستہ بنتا ہے اور سارے شہر میں جلسہ تھا۔

سابق وزیر نے کہاکہ ملتان میں جب لوگ صبح نکلے تو انتظامیہ غائب تھی بلکہ پورے شہر میں کوئی ایک سپاہی نہیں نظر آیا، ٹریفک پولیس والے بھی ڈیوٹیاں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، اگر انہوں نے یہی حالات لاہور میں بھی پیدا کرنے ہیں تو پھر ان کی مرضی ہے، کل ہمیں کوئی دوش نہ دے۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر انہوں نے یہ حالات لاہور میں بھی پیدا کیے تو اس سے تصادم اور کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے، ہماری درخواست ہے کہ یہ اس طرف آگے نہ بڑھے اور آگے بڑھنا ہے تو اس کی ذمے داری ان پر ہو گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ عمران نیازی حکومت مقدمات درج کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کررہی ہے تو یہ مقدمات جتنے چاہیں شوق سے درج کر لیں لیکن اگر یہ 13 دسمبر سے پہلے گرفتاریوں کی طرف بڑھے تو اس کے نتائج بہت گہرے ہوں گے، ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں کرنی چاہیے۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ نواز شریف علاج کی غرض سے لندن میں رکے ہوئے ہیں، جیسے ہی علاج مکمل ہو گا تو واپس آئیں گے، باقی پارٹی کا ان کو مشورہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنا علاج مکمل کروائیں بلکہ اس نااہل اور نالائق ٹولے کا بھی علاج مکمل کر کے واپس آئیں۔

انہوںنے کہاکہ وطن واپسی کا فیصلہ نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) نے کرنا ہے، اس فیصلے کے لیے ہمیں کسی نے مشورہ دیا ہے نہ ہمیں کسی کے مشورے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو جذبہ خیرسگالی کے تحت رہا نہیں کیا گیا، پورے ملک سے لوگوں نے ان سے تعزیت کیلئے آنا تھا لیکن پہلے تو حکومت کے ترجمانوں نے گھٹیا بکواس کی اور اس معاملے پر انسانیت سوز رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف پانچ دن کے لیے پیرول پر رہا کیا جس سے ہم بالکل بھی مطمئن نہیں ہیں۔

اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 8 دسمبر کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے، اس اجلاس سے متعلق گزشتہ روز مریم نواز کی شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ہے جس میں بقیہ پارٹی قیادت بھی موجود تھی، مسلم لیگ (ن) نے اپنا مؤقف واضح کر لیا ہے اور اب دیکھنا ہے کہ اس دن کیا فیصلہ ہوتا ہے۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ اس دن 13 دسمبر کے بعد کون سے مرحلے پر اتفاق ہوتا ہے، ایک ریلیاں ہو سکتی ہیں، فیصلہ کن لانگ مارچ کا آپشن ہے، تیسرا اس میں استعفوں کا آپشن ہے اور اب پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس فیصلہ کرے گا کہ کون سا آپشن پہلے اور کون سا بعد میں استعمال کرنا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں