گرینڈ قومی ڈائیلاگ کے بنیادی نکات سامنے آگئے ، اہم مطالبہ بھی کردیا گیا

قومی اتفاق رائے کے حوالے سے ایک خفیہ سیشن کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے جس میں تمام رہنماوں کو اس نکتے پہ غور کرنا چاہیے کہ ملک کا مسخ شدہ چہرہ کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے ، تجزیہ کار و کالم نویس ایاز امیر کا تبصرہ

Sajid Ali ساجد علی ہفتہ 5 دسمبر 2020 12:46

گرینڈ قومی ڈائیلاگ کے بنیادی نکات سامنے آگئے ، اہم مطالبہ بھی کردیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 دسمبر2020ء) پاکستان میں آج کل قومی سطح کے ڈائیلاگ کی باتیں زباد زد عام ہیں ، اس صورتحال میں ڈائیلاگ کے بنیادی نکات اور کچھ اہم مطالبات سامنے آئے ، تجزیہ کار و کالم نویس ایاز امیر لکھتے ہیں کہ قومی اتفاق رائے کے حوالے سے ایک خفیہ سیشن کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے جس میں تمام رہنماوں کو اس نکتے پہ غور کرنا چاہیے کہ ملک کا مسخ شدہ چہرہ کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن پہلے یہ احساس تو ہو کہ اچھے بھلے ملک کا چہرہ مسخ شدہ ہو چکا ہے ، یہ احساس ہونا بھی ضروری ہے کہ کہ بے جا گھٹن کا سماں ملک میں خواہ مخواہ پیدا کیا ہوا ہے ، یہ چیز بھی مدنظر رکھی جائے کہ معاشرے میں منافقت بہت بڑھ چکی ہے، ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں ، نیکی اور پرہیزگاری کا فضول میں لبادہ اوڑھ رکھا ہے ،ایسی روشوں سے معاشرے میں دوغلے پن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

قومی اخبار کیلئے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ کسی بھی قسم کے قومی ڈائیلاگ کا پہلا نکتہ تو یہ ہونا چاہیے کہ جنرل ضیاالحق کے کچھ قوانین فی الفور ختم ہوں ، اِن میں سرفہرست حدود آرڈیننس ہے ، اس قانون کے نفاذ کو بہت عرصہ گزر چکا ہے، اب اسے ختم ہونا چاہیے کیوں کہ اس کا فائدہ ذرہ برابر بھی نہیں لیکن نقصان بہت ہے، ہمارے معاشرے میں گھٹن کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ یہ قانون ہے۔

تجزیہ کار نے لکھا کہ دوسرا نکتہ صفائی کے بارے میں ہے ، یوں تو ہم کہتے نہیں تھکتے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن دیکھا جائے تو گندگی پیدا کرنے اور پھیلانے میں بطور قوم ہم ایک خاص ملکہ رکھتے ہیں ، گندگی کی سب سے نمایاں نشانی شیطان کی پیدا کردہ وہ شے ہے جسے ہم پلاسٹک کے شاپر کہتے ہیں ، ایٹمی جنگ کی تباہی تو تب ہو گی جب ایسی جنگ چھڑ ے گی لیکن پلاسٹک کے شاپروں کی تباہی کچھ کم نہیں ہے جنہوں نے پوری مملکت کو گندا کیا ہوا ہے ، یوں تو گندگی کے ڈھیر ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اگر ان کی انسپکشن کی جائے تو ان ڈھیروں کے 70 فیصد اجزا پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پہ مشتمل ہوں گے، حیرانی کی بات بہرحال یہ ہے کہ یہ تباہی ہمیں نظر نہیں آتی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کے استعمال پہ مکمل پابندی نہیں لگتی؟ یہ قومی اتفاقِ رائے کا حصہ ہونا چاہیے کہ فی الفور پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی تیاری یعنی مینوفیکچرنگ پہ پاکستان میں مکمل پابند ی عائد ہو۔

انہوں نے لکھا کہ قومی ڈائیلاگ کے ذریعے سے قابل کاشت زمین کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر تباہی کو روکا جائے، کوئی شہر اس لعنت سے بچا ہوا نہیں ، ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی جا رہی ہیں اور صرف قابل کاشت نہیں بلکہ زرخیز زمین ان کے نرغے میں آکے ہمیشہ کیلئے تباہ ہو رہی ہے ، یہ تباہ کاری کیا ہمیں نظر نہیں آتی؟ لاہور کے گرد کتنا زرخیز رقبہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نذر ہو چکا ہے ، ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ایسی بھی ہیں جن کا نام بہ آسانی نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اسے حساس یا نازک مسئلہ سمجھا جاتاہے لیکن جن لوگوں کی عمریں تھوڑی زیادہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چالیس سال پہلے کا لاہور کیسا تھا اور اَب اس کا حشر کیا ہو گیا ہے لاہور کی تو صرف مثال دی جارہی ہے ، ورنہ ہر شہر کے ساتھ یہی ہواہے۔

کالم نویس کے مطابق ایک انتہائی اہم نکتہ تعلیم کا بھی بنتا ہے ، ہم نے اپنے ہاں کیا تماشا روا رکھا ہوا ہے کہ مختلف معاشرتی طبقات کے لئے مختلف طریقۂ تعلیم اپنائے ہوئے ہیں ، انگریزی اسکول الگ ہیں ، اردو میڈیم الگ اور ان دونوں سے الگ دینی تعلیم والے مدارس ہیں ، طاقت اور ترقی کی زبان انگریزی ہے، پیچھے رہنے کی زبان اردو کو بنایا ہوا ہے ، مدارس کے بارے میں کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے، نظام جو بھی رکھیں چاہے فرانسیسی زبان پہ مبنی ہو یا یونانی زبان پہ، پورے ملک میں ایک ہونا چاہیے، نصاب ایک ہو، امتحانات ایک قسم کے ہوں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں