ن لیگ نے جاوید لطیف ، محمد زبیر اور طارق فضل چوہدری کو ٹاک شوز میں شرکت سے روک دیا

میڈیا پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے رہنماؤں کی فہرست جاری ، کئی دیگر سینئر رہنماؤں کے نام بھی شامل نہیں ، جس کی بناء پر فہرست میں جگہ نہ پانے والے رہنماؤں نے قیادت سے احتجاج ریکارڈ کرانا شروع کردیا ، ذرائع

Sajid Ali ساجد علی جمعہ 23 اپریل 2021 10:39

ن لیگ نے جاوید لطیف ، محمد زبیر اور طارق فضل چوہدری کو ٹاک شوز میں شرکت سے روک دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 23 اپریل2021ء) پاکستان مسلم لیگ ن نے ن لیگ نے جاوید لطیف ، محمد زبیر اور طارق فضل چوہدری کو ٹاک شوز میں شرکت سے روک دیا ، میڈیا پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے رہنماؤں کی فہرست جاری کر دی۔ میڈیا ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اسحاق ڈار نے لندن سے پارٹی رہنماؤں کی ایک فہرست جاری کی ہے جنہیں ٹاک شوز میں شرکت کی اجازت دی گئی ، ان رہنماؤں میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، ترجمان ن لیگ مریم اورنگزیب ، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ ، عظمیٰ بخاری ، احسن اقبال ، رانا ثناءاللہ ، حمزہ شہباز، مصدق ملک ، عرفان صدیقی، خرم دستگیر اورطلال چوہدری شامل ہیں جب کہ جاوید لطیف ، محمد زبیر اور طارق فضل چوہدری کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ، جس کے باعث ان رہنماؤں کو ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ لینےکی اجازت نہیں ہوگی تاہم پارٹی کی طرف سے جاری کی گئی فہرست میں کئی دیگر سینئر رہنماؤں کے نام بھی شامل نہیں ہیں ، جس کی بناء پر فہرست میں جگہ نہ پانے والے رہنماؤں نے قیادت سے احتجاج ریکارڈ کرانا شروع کردیا۔

(جاری ہے)

دوسری جانب پارلیمانی اجلاس میں مسلم لیگ ن کی قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین اسمبلی کے دباؤ ڈالنے کا انکشاف ہوگیا ، ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کی تجویز مسلم لیگ ن کے اراکین کی بڑی تعداد کی جانب سے رد کردی گئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے ان کے حلقوں میں ان کے لیے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں ، رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد پیش کرنے کے لیے بلائے گئے پارلیمانی اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد مسلم لیگ ن کے بھی کچھ رہنماؤں نے اس اجلاس سے دور رہنے اور پی ٹی آئی کو خود ہی اس مسئلے سے نمٹنے لیے چھوڑنے کی تجویز دی تھی۔

تاہم جب یہ معاملہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں زیر غور آیا تو اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی جن کا کہنا تھا کہ ان کے حلقوں میں اس قسم کے فیصلے کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں ، حتیٰ کہ زیادہ تر ارکان اس معاملے پر دورانِ اجلاس بات کرنے کے خواہشمند تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں اپنے نام دینے کے لیے قیادت پر دباؤ ڈالا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں