پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات یا سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، احسن اقبال

عمران خان کہتے ہیں کشمیر کا مسئلہ حل کردو ہم ایٹمی پروگرام بند کرنے کیلئے تیار ہیں، ہمیں ایٹمی پروگرام کی ضرورت نہیں ہے، جناب عمران خان آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہی ،ایٹمی پروگرام 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے، جس کے لیے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں،منفی سوچ سے ملک نہیں چلتے،اس حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے گالیاں نکالو، تنقید کرو، برا بھلا کہوں، این آر او نہیں دوں گا، اس کو جیل میں ڈالوں، اس پر جھوٹا مقدمہ بنالو،دو ماہ قبل والا شوکت ترین سچا ہے یا بجٹ والا،آج گندم بھی درآمد، کپاس بھی درآمد، چینی بھی درآمد یہ سب تین سال کی تباہی کا نتیجہ ہے ،وزیر اطلاعات کے پاس معیشت اور توانائی پر بات کرنے کی مہارت نہیں ،اگر کسی قبضے والے پلاٹ پر اسٹے حاصل کرنا ہو یا قانونی مشاورت درکار ہوتو آپ بات کرسکتے ہیں ،سی پیک کے منصوبوں پر کیچڑ اچھالنا ان کا وطیرہ ہے، اسمبلی میں خطاب واحد حکومت ہے جو تین سال سے اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے،ذو الفقار بچانی …سیلز ٹیکس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے،اقبال محمد علی پائیدار ترقی کے اہداف سیاسی استحکام کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ، مختار ملک …احتساب اداروں میں بیٹھے لوگوں کا بھی ہونا چاہیے ، محمد عالمگیر خان نئے پاکستان میں ہر پاکستانی کی جیب میں دس لاکھ کا صحت کارڈ ہے،پرانے پاکستان میں صرف حکمران ترقی کر رہے تھے ، ملک انور تاج

بدھ 23 جون 2021 00:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جون2021ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے وزیراعظم کے بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات یا سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، عمران خان کہتے ہیں کشمیر کا مسئلہ حل کردو ہم ایٹمی پروگرام بند کرنے کیلئے تیار ہیں، ہمیں ایٹمی پروگرام کی ضرورت نہیں ہے، جناب عمران خان آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہی ،ایٹمی پروگرام 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے، جس کے لیے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں،منفی سوچ سے ملک نہیں چلتے،اس حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے گالیاں نکالو، تنقید کرو، برا بھلا کہوں، این آر او نہیں دوں گا، اس کو جیل میں ڈالوں، اس پر جھوٹا مقدمہ بنالو،دو ماہ قبل والا شوکت ترین سچا ہے یا بجٹ والا،آج گندم بھی درآمد، کپاس بھی درآمد، چینی بھی درآمد یہ سب تین سال کی تباہی کا نتیجہ ہے ،وزیر اطلاعات کے پاس معیشت اور توانائی پر بات کرنے کی مہارت نہیں ،اگر کسی قبضے والے پلاٹ پر اسٹے حاصل کرنا ہو یا قانونی مشاورت درکار ہوتو آپ بات کرسکتے ہیں ،سی پیک کے منصوبوں پر کیچڑ اچھالنا ان کا وطیرہ ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ کس نے اس وزیراعظم کو حق دیا ہے کہ وہ دنیا کو کہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات ہوسکتی ہے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات نہیں ہوسکتی اور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ انہوںنے کہاکہ یہ کہتے ہیں کشمیر کا مسئلہ حل کردو ہم ایٹمی پروگرام بند کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں ایٹمی پروگرام کی ضرورت نہیں ہے، جناب عمران خان آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ آپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات نہیں کرسکتے، ایٹمی پروگرام 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے، جس کے لیے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے کہ عمران خان کو پاکستان ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے سازش کے طور پر پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ وہ بیرونی ڈونرز کا ایجنڈا ہے، ہم بھی حیران تھے کہ فارن فنڈنگ کیس میں بلی تھیلے کے اندر کیوں بند ہے، فارن فنڈنگ میں ڈونرز نے جو پیسہ دیا تھا اس کا ایجنڈا یہی تھا کہ عمران خان سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اوپر کہلوائے کہ ہم اس کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ میں اس ایوان کے ذریعے یہ اعلان کرتا ہوں کہ چاہے کشمیر کا مسئلہ حل ہو یا نہ ہو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات نہیں ہوسکتی اور کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کا چوتھا بجٹ بھی گزشتہ تین سے مختلف نہیں ہے، اس میں انہوں نے غیر حقیقت پسندانہ اہداف رکھے ہیں۔انہوںنے کہاکہ حکومت نے 5 ہزار 829 ارب کا ٹیکس حاصل نہیں کرسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ عوام سے چھپایا ہے، اب اس کے بعد مزید منی بجٹ آئیں گے اور اگر یہ بجٹ منظور ہوا تو ملک کے اندر مہنگائی کی بدترین لہر آئے گی۔احسن اقبال نے کہا کہ اس حکومت کی منفی اقتصادی پالیسیوں سے معیشت کو نقصان پہنچا۔ انہوںنے کہاکہ 70 کی دہائی میں جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو ملک بغیر اقتصادی پالیسی کے تھا کیونکہ اس وقت مشکلات تھیں اور اس کے بعد اب پھر ملک بغیر اقتصادی پالیسی اور بغیر کسی سمت کے ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اس حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے گالیاں نکالو، تنقید کرو، برا بھلا کہوں، این آر او نہیں دوں گا، اس کو جیل میں ڈالوں، اس پر جھوٹا مقدمہ بنالو۔انہوں نے کہا کہ منفی سوچ سے ملک نہیں چلتے، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کا وزیراعظم بین الاقوامی فورمز پر جا کر یہ کہتا ہو کہ میرا ملک سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔ انہوںنے کہاکہ دنیا کا کوئی وزیراعظم ایسا نہیں ہے جو بین الاقوامی فورمز پر جا کر کہے کہ جتنی منی لانڈرنگ میرے ملک میں ہوتی ہے، اتنی کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کی پالیسیاں ہیں، جو انہوں نے اپنے ملک کی بدنامی کیلئے بین الاقوامی سطح پر کیں کہ آج پاکستان میں عالمی سرمایہ کار جا چکا ہے۔رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جس گھر کا سربراہ یہ کہے کہ میرا گھر تو اجڑا ہوا ہے تو اس گھر کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کو تیار نہیں ہوگا، جس کاروبار، فیکٹری کا مالک کہے گا میرا کاروبار تو دیوالیہ ہوچکا ہے تو اس کے ساتھ کوئی کاروبار نہیں کرے گا۔

انہوںنے کہاکہ یہ جھوٹ بول بول صرف پچھلی حکومت کی کردار کشی کرنا چاہتے تھے، انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی کردار کشی میں پاکستان کی کردار کشی کی اور اس کی سزا 22 کروڑ عوام کو ملی۔سابق وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ بجٹ میں کچھ اہداف رکھے جاتے ہیں تاہم بجٹ کے اہداف کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اصل بات ہے کہ اہداف حاصل کرنے کے لیے آپ کی صلاحیت کیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ اس حکومت کی ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ان کے وزرا کی اسمبلی میں تقریر سے ہوسکتا ہے، وزرا کی جانب سے جو لطیفے بیان کیے گئے ہیں وہ یا اعتماد دے سکتے ہیں یا پھر بداعتمادی دے سکتے ہیں کہ یہ حکومت کیا حاصل کرے گی۔احسن اقبال نے کہا کہ وزیر خزانہ نے سینیٹ میں فرمایا کہ یہ ملک اب ترقی کے راستے پر چل پڑا ہے، یہ وہی وزیر خزانہ ہے جو دو ماہ پہلے کہہ رہا تھا کہ تین سال کی پالیسیوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے اور اب ہمیں دو ماہ بعد ہی جنت کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا وہ شوکت ترین سچا تھا جو کہہ رہا تھا کہ ڈی ویلیوشن اور 13 فیصد پالیسی ریٹ پر حکومت نے اس ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے یا پھر وہ شوکت ترین سچا ہے جو ہمیں جنت کی تصویر دکھا رہا ہے۔وزیرخزانہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ فرما رہے تھے کہ پاکستان نیٹ فوڈ امپورٹر ہوگیا ہے، تین سال پہلے تو پاکستان نیٹ فوڈ امپورٹر نہیں تھا۔

انہوںنے کہاکہ آج گندم بھی درآمد، کپاس بھی درآمد، چینی بھی درآمد یہ سب تین سال کی تباہی کا نتیجہ ہے اور پھر بجٹ میں ہمیں خوش خبری سناتے ہیں ہم نے زراعت کو بہت ترقی دے دی ہے۔رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پھر یہ بھی فرمایا کہ ہمیں بارودی سرنگیں ملیں، جن کے اندر ہم پھنس گئے، لیکن میں وزیرخزانہ کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم بارودی سرنگیں نہیں بلکہ آپ کو سی پیک کی صورت میں گولڈ مائن دی تھی، جس کے تحت آپ چلاتے تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے پاکستان کی اس گولڈ مائن کو بھی تباہی میں تبدیل کردیا ہے اور تین سال کے اندر پاکستان کو قرضوں میں پھنسا دیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اطلاعات کے پاس معیشت اور توانائی پر بات کرنے کی مہارت نہیں ہے اگر کسی قبضے والے پلاٹ پر اسٹے حاصل کرنا ہو یا قانونی مشاورت درکار ہوتو آپ بات کرسکتے ہیں لیکن معیشت اور ٹیکنالوجی پر بات کرنے کی آپ کے پاس سند نہیں ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ساہیوال انرجی پلانٹ لوڈ سینٹر کے قریب لگا ہے، توانائی کے پلانٹ لوڈ سینٹر کے قریب لگائے جاتے ہیں تاکہ ترسیل کے نقصانات کم سے کم ہوں۔انہوں نے کہا کہ ساہیوال کا پلانٹ سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی پر لگا ہے جو جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلودگی سے مبرا ہے اور سی پیک کے ہر منصوبے کے لیے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کا آڈٹ لازمی تھا اور اس کی منظوری کے بعد سی پیک کے منصوبے لگے ہیں۔

اپوزیشن رہنما نے کہا کہ یہ ان کا وطیرہ ہے کہ سی پیک کے جتنے منصوبوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ان پر الزام لگاتے ہیں، سی پیک کو متنازع کر کے سی پیک کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہی وجہ ہے سی پیک گیم چینجر تھا جس کو آج انہوں نے مفلوج کردیا ہے۔انہوںنے کہاکہ چین آج 400 ارب ڈالر کا پیکیج لے کر ایران چلاگیا ہے، یہی 400 ارب ڈالر پاکستان کی طرف آسکتے تھے اور آنے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بجلی کے منصوبے مہنگے ہیں تو اس میں خیبرپختونخوا کی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی قصور وار ہے کیونکہ اس نے ان منصوبوں کی منظوری دی ہے، اس لیے اگر ہم نے کوئی جرم کیا ہے تو آپ بھی برابر شریک ہیں۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے ذو الفقار بچانی نے کہاکہ واحد حکومت ہے جو تین سال سے اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے،حکومت کسانوں کو زرعی آلات اور بیج پر سبسڈی دے،حکومت ٹیوب ویلز کو سولر توانائی پر منتقل کرنے کیلئے کسان کی مدد کرے۔

انہوںنے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے حکومت آئندہ الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ بنا رہی ہے،الیکشن اصلاحات سے متعلق حکومت تمام سیاسی جماعتوں کی تجاویز لے،وفاقی حکومت ترقیاتی فنڈز کی مد میں ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے بانٹ رہی ہے،ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی خان نے کہاکہ اسمبلی میں جو طوفان بدتمیزی ہوئی اس پر شرمندہ ہوں اور مذمت کرتا ہوں،میں نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر بھی سنی مگر بات نواز شریف شہباز شریف کی ہوتی رہی ،آج اس حالت میں جو یہ ملک پہنچا اسکی ذمہ داری کون لے گاابھی تک سندھ حکومت کو 23 ہزار ارب مل چکا وہ کہاں ہے،سیلز ٹیکس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ سندھ نہیں صرف کراچی 70 فیصد ریونیو ملک کا دیتا ہے،کراچی میں عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے، ان لوگوں کا کیا قصور ہے،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی و دیگر نے کروڑوں لے کر اسکی منظوریاں دی،پی ٹی آئی کی حکومت ٹیسٹ میچ ہے پورے پانچ سال چلے گی،ابھی بیٹنگ کیلئے بڑے بڑے کھلاڑی باقی ہیں۔ڈاکٹر مختار ملک نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ عمران خان اور ان کے وزراء کے فرمودات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،سب سے پہلے سی پیک کو ری وزٹ کرنے کا کہا اور اس پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ،بزنس مینوں کو میں کے حوالے سے ڈرایا گیا ،پھر کہا گیا پی آئی اے کے تمام پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں ،حکومت اپنی طرز حکمرانی کو بدلے ۔

انہوںنے کہاکہ پنجاب میں ڈی پی او اور ڈی سی او کے عہدوں کی منڈی لگی ہوئی ہے ،کرپشن ختم کرنی ہے تو پہلے اپنے دائیں بائیں دیکھیں ،پبلک سیکٹر اداروں میں کرپشن ختم کرنے کیلئے کوئی آرڈیننس نہیں لاتی حکومت ،پائیدار ترقی کے اہداف سیاسی استحکام کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ،جیب اگر عوام کی خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے۔ملک انور تاج نے کہاکہ موجودہ بجٹ عوام دوست ہے اور عوام کو ریلیف دیا گیا ہے ،پرانے پاکستان میں بجلی کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے کیئے گئے ، نئے پاکستان میں دس نئے ڈیم بننے جارہے ہیں،نئے پاکستان میں ہر پاکستانی کی جیب میں دس لاکھ کا صحت کارڈ ہے،پرانے پاکستان میں صرف حکمران ترقی کر رہے تھے ،پرانے پاکستان میں مزدور کھلے آسمان تلے رات گزارتے تھے ،نئے پاکستان میں پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں ،پرانے پاکستان میں ڈو مور کا مطالبہ ہوتا تھا ،نئے پاکستان میں ایبسلوٹلی ناٹ کہا جاتا ہے ،نئے پاکستان میں ریاست مدینہ کی بات ہوتی ہے ،پرانے پاکستان میں کبھی ریاست مدینہ کی بات نہیں ہوئی۔

محمد عالمگیر خان نے کہاکہ سیکریٹریوں کے ٹیبل پر سارا دن فائلیں پڑی رہتی ہیں انہیں دستخط کرتے موت آتی ہے،سندھ میں نیب زدہ شخص کو وزارت خزانہ میں بٹھایا گیا ہے،کراچی میں ان لوگوں کو بھی لٹکایا جائے جن کے دستخط سے غیرقانونی قبضے ہوئے،کوئی تو بیوروکریسی سے پوچھے کہ ان کی جو ذمہ داری تھی اس میں کیا کیا ،بیوروکریسی عیاشیاں کررہی ہے ،احتساب اداروں میں بیٹھے لوگوں کا بھی ہونا چاہیے ،سندھ کے حکمرانوں خدا کو مانو ،کراچی اور سندھ سے مزید بدلہ نہ لو ،581 ارب وفاق نے دیئے بتائیں کہاں لگائے ،کراچی کے ہر ادارے میں ضرورت سے ذیادہ بھرتیاں ہیں ،سندھ کے کچرے کی صفائی کیا وفاق نے کرنی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ جب وفاق کچھ کرتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے ،کراچی میں تھانے بکتے ہیں جعلی پولیس مقابلے ہوتے ہیں،اٹھارویں ترمیم میں سندھ نے اختیارات لئے تو جواب بھی دیں،کراچی میں نالے صاف کرنے کے لیے بھی این ڈی ایم اے سے مدد لینا پڑی،کے فور کا منصوبہ 2007 سے کاغذوں میں چل رہا تھا۔ انہوںنے کہاکہ سندھ میں 200ارب تعلیم کیلئے رکھا گیا ،سکولوں میں گائے بھینسوں کو باندھا جاتا ہے ،سکولوں میں گھوسٹ ملازمین ہیں ،کراچی کے میئر کو وسائل نہیں دیے گئے۔

شیخ فیاض الدین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ اسمبلی میں جتنا جھوٹ بولا گیا اگر اللہ تعالی کے نام اس اسمبلی کی چھت پر نہ لکھے ہوتے تو چھت گر گئی ہوتی،پرانے پاکستان میں چینی 52 روپے نئے پاکستان میں سو روپے کلو ہے،پرانے پاکستان میں ڈالر 104 روپے نئے پاکستان میں ایک سو ستاون روپے کا ہے،پرانے پاکستان میں دودھ 65 روپے نئے پاکستان میں 120 روپے کلو ہے،پرانے پاکستان میں گوشت سات سو روپے کلو نئے پاکستان میں تیرہ سو روپے کلو ہے،موجودہ حکومت وہ گائے ہے جو نہ دودھ دیتی ہے نہ بچھڑا دیتی ہے اسے قصاب کے حوالے کیا جائے،آئندہ انتخابات میں ووٹ کی چھری سے اس گائے سے چٹکارا حاصل کریں گے،وزیر حادثات جو وزیر ریلوے بھی ہیں کہتے ہیں کہ حکومت عدلیہ اور فوج ایک پیج پر ہیں ،انھیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ عوام اس پیچ پر نہیں ہیں۔

آفتاب جہانگیر نے کہاکہ بلاول کو پورا بجٹ پڑھنے کے بعد صرف گدھوں کی افزائش نظر آئی،پرانے پاکستان میں اگر گوشت سات سو روپے کلو ملتا تھا تو وہ گدھوں کا ہی تھا ،سرکاری ملازمین کہتے ہیں کہ تنخواہ 9 فیصد بڑھائیں یا 11 فیصد ،ٹین پرسنٹ کا نام نہ لیا کریں ،مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو شہید ہوئے ان کی حکومت تھی،تحقیقات اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ کھوجی نے بتایا کہ راستہ ان کے گھر کی طرف جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ تیس سال پیپلز پارٹی نے کام کیا ہوتا تو آج کراچی کا نقشہ ہی تبدیل ہوتا،انہوں نے ایان علی کو بجٹ دینا تھا تو یہ حلقوں میں کیسے بجٹ لگاتے،عمران خان سے کہوں گا کہ وہ بیوروکریسی کا اعتبار نہ کریں،بیوروکریسی وہ پودے ہیں جو اپوزیشن کے لگائے ہوئے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں