اسامہ ستی قتل کیس ، دہشت گردی کی دفعات بحال کردی گئیں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا

Sajid Ali ساجد علی منگل 27 جولائی 2021 18:53

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 27 جولائی 2021ء ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسامہ ستی کیس میں دہشت گردی کی دفعات بحال کردیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار نے مقتول اسامہ ستّی کے والد کی اپیل پر محفوظ فیصلہ سنا دیا جس میں عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کو بحال کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

قبل ازیں عدالت کے روبرو درخواست گزار کے وکیل غلام افضل راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسامہ ستی کو ملزمان کی جانب سے 17 گولیاں ماری گئیں ، پولیس اہلکاروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت یہ دہشت گردی کا کیس ہی بنتا ہے۔ خیال رہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ملزمان کی درخواست پر دہشت گردی کی دفعات ختم کردیں تھیں ، جس کے بعد فیصلے کیخلاف اسامہ ستی کے والد نے دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔

(جاری ہے)

دوسری طرف اسلام آباد میں قتل ہونے والے اسامہ ستی کیس میں انتہائی اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتار پولیس اہلکار مدثر مختار کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ، جب کہ 4 پولیس اہلکار تاحال اڈیالہ جیل میں قید ہیں ، انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمہ سیشن کورٹ بھیج دیا تھا ، ملزمان کے خلاف ٹرائل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جاری ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال جنوری میں اسلام آباد میں اسامہ ستی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا ، جس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسامہ ستی کی موت کے 4 گھنٹے تک مقتول کے اہلخانہ کو لاعلم رکھا جبکہ ملوث اہلکاروں نے اس رات اپنے افسران کو مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں اور اسامہ کے قتل کو انکاؤنٹر گرادنتے رہے ، وقوعہ سے 18 گولیوں کے خول 72 گھنٹے کے بعد این ایف ایس اے بھیجے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے تفتیشی افسران بھی ملوث اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کررہے تھے ، اہلکاروں نے چاروں طرف سے 22 گولیاں اسامہ ستی پر فائرکیں جب وہ اپنی کار میں بیٹھا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اہلکار اسامہ کو جان سے مارنے کی نیت رکھتے تھے۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ 15 کنٹرول روم کی جانب سے ریسکیو 1122 کو وقوعہ کی لوکیشن سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں پھر کچھ دیر بعد ریسکیو گاڑی کو پھر پیغام دیا گیا کہ واپس آجائیں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ، اسامہ ستی کی لاش روڈ پر پڑی تھی اور پولیس نے اپنی گاڑیوں کے ذریعے ایک گھیرا بنا لیا تاکہ عوام کی نظروں سے معاملے کو خفیہ رکھا جا سکے ، اسامہ ستی کو ہسپتال پہنچانے کے بجائے لاش کو روڈ پر پڑی رہنے دی جس سے ظاہر ہوتا ہے اہلکار اسامہ کے مرنے کا کا انتظار کررہے تھے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رانا محمد وقاص کی جانب سے کی گئی اسامہ ستی قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ وزارت داخلہ کو جمع کروادی گئی ، جس میں پانچوں اے ٹی ایس اہلکار کو قتل کا ذمہ دارقرار دیا گیا جن کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی بھی سفارش کی گئی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں