حکومت کی بجلی کے نرخوں میں اضافہ روکنے کیلئے مہنگی ایل این جی خریدنے کی وضاحت

سپاٹ مارکیٹ سے مہنگی ایل این جی کی خریداری ’کم برا فیصلہ‘ہے ،کوئی بھی عالمی اشیاء کی مارکیٹ بارے پیشگوئی کرکے اسے شکست نہیں دے سکتا،حکومت

ہفتہ 31 جولائی 2021 14:34

حکومت کی بجلی کے نرخوں میں اضافہ روکنے کیلئے مہنگی ایل این جی خریدنے کی وضاحت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جولائی2021ء) حکومت نے سپاٹ مارکیٹ سے مہنگی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی خریداری کو نسبتاًکم برا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بین الاقوامی اشیاء کی مارکیٹ کے بارے میں پیشگوئی کرکے اسے شکست نہیں دے سکتا۔نجی ٹی وی کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کی طرف سے جاری اعلامئے میں کہا گیا کہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) بورڈ ستمبر 2021 کے لیے 4 ایل این جی 'اسپاٹ' ٹینڈر 15 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر قبول کرنے پر مجبور ہوا، دوسری صورت میں متبادل ایندھن (یعنی فرنس آئل) جو کہ اس سے بھی زیادہ مہنگا ہے، ستمبر میں بجلی کی قیمتوں میں کم از کم 20 فیصد تک اضافہ ہوتا۔

ستمبر میں پی ایل ایل کی جانب سے قبول کردہ 4 سپاٹ ایل این جی کی ترسیل کے لیے بولیاں 15.2 سے 15.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان تھیں جو کہ 2015 میں ایل این جی کی درآمد کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

دلچسپ بات یہ ہے کہ ستمبر اور اکتوبر کے لیے تقریباً 8 بولیاں منسوخ کر دی گئیں جن میں قطر سے 13.79 سے 13.99 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو شامل تھیں جبکہ دیگر بولیاں 16 ڈالر تک پہنچ گئیں تھیں۔

15.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی بولی پر سابقہ جہاز پر پہنچی، اختتامی ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک پر فروخت کی قیمت 20 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے زیادہ بہتر ہوگی۔پٹرولیم ڈویڑن نے زاید قیمتوں کے حق میں جواز پیش کیا کہ حال ہی ہی میں ’اسپاٹ‘ ایل این جی سے متعلق اشیا کی قیمتوں میں 15 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ ہوا جس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں پاپوا نیو گنی میں ایکسن کی سہولت میں کمی اور طلب سے متعلقہ عوامل مثلاً چین اور جاپان میں گرم موسم کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہے۔

ادارے نے وضاحت دی کہ پاکستان کی ماہانہ ایل این جی کی تقریباً ایک تہائی خریداری ’اسپاٹ‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور بقیہ دو تہائی طویل مدتی معاہدے کی بنیاد پر ہوتی ہے جو کہ بنیادی طور پر ایل این جی درآمد کرنے والے ممالک کی عالمی اوسط کے مطابق ہوتی ہے۔وزارت نے دعویٰ کیا کہ آر ایل این جی کی قلت کی وجہ سے حکومت گرمیوں میں بجلی کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ڈیزل جلانے پر مجبور ہوئی اور اس کے نتیجے میں ستمبر میں بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت تقربیاً 50 فیصد زیادہ مہنگی ہوئی۔

پٹرولیم ڈویڑن نے کہا کہ ’تو، یہ ان دو برائیوں میں سے کم ہے‘۔انہوں نے کہا کہ اگر سسٹم میں وافر مقدار میں آر ایل این جی نہ ہوتی تو صنعتی شعبے کے لیے جبری گیس لوڈشیڈنگ کی ’موزوں وقت پر قیمت‘ کا بھی حساب دینا پڑتا۔وزارت پیٹرولیم کے مطابق خام تیل کی قیمتیں فی بیرل 75 ڈالر ہیں جبکہ درآمد شدہ کوئلے کی قیمت میں بھی رواں برس جنوری سے تقریباً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوا کہ زیادہ تر توانائی سے متعلقہ اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر طلب اور محدود سپلائی عوامل کی وجہ سے معیشتیں کووڈ 19 کے بعد کھلتی ہیں۔وزارت توانائی نے مزید کہا کہ کرسٹل بال کے بغیر کوئی بھی بین الاقوامی اشیا کی منڈی کو مکمل طور پر شکست نہیں دے سکتا اور اسپاٹ خریداری کے وقت (یعنی پہلے یا بعد میں) اور اصل کے درمیان کوئی ثبوت پر مبنی ارتباط نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایل این جی کی قیمت جیسا کہ یہ مختلف (اوپر اور نیچی) وقتاً فوقتاً طلب و رسد کے عوامل کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے۔وزارت نے کہا کہ پاکستان نے 100 فیصد طویل مدتی معاہدے کی خریداری کا انتخاب کر سکتا ہے۔علاوہ ازیں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے کہا کہ پائپ لائن کی تعمیر اور آپریشن کے لائسنس جاری کر کے ایک آخری سنگ میل حاصل کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اینرگاس ٹرمینل (پرائیویٹ) لمیٹڈ اور تبیر انرجی (پرائیویٹ) کو ایل این جی سپلائی چین کے لیے لائسنس جاری کیے گئے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں