ْآئین نافذالعمل نظر نہیں آرہا ،ملک میں ایک ہی قانون ہے وہ ریاست کا قانون ہے ،رضا ربانی

سول ملٹری ریلیشن شپ خام خیالی ہے ،ریاست اپنے کنٹرول کو مکمل کرنا چاہ رہی کیا افغانستان کا معاملہ پارلیمان میں آیا ، خطاب

منگل 28 ستمبر 2021 16:22

ْآئین نافذالعمل نظر نہیں آرہا ،ملک میں ایک ہی قانون ہے وہ ریاست کا قانون ہے ،رضا ربانی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2021ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ آئین نافذالعمل نظر نہیں آرہا ،ملک میں ایک ہی قانون ہے وہ ریاست کا قانون ہے ،سول ملٹری ریلیشن شپ خام خیالی ہے ،ریاست اپنے کنٹرول کو مکمل کرنا چاہ رہی کیا افغانستان کا معاملہ پارلیمان میں آیا ۔

معلومات تک رسائی کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ آئین نافذالعمل نظر نہیں آرہا ملک میں ایک ہی قانون ہے وہ ریاست کا قانون ہے ،پاکستان کی رولنگ ایلیٹ نے ریاست کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ۔ انہوںنے کہاکہ سول ملٹری ریلیشن شپ خام خیالی ہے ، انہوںنے کہاکہ جب آپ کہتے معلومات نہیں مل رہی وہ کیوں آپ کو ملے گی ،ادرارے جان بوجھ کر ختم کیے جارہے ہیں ،ریاست خود اٴْن کو ختم کرے تو فسطائی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں ،جوڈیشری پر حملہ کیا میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ چھ سے سات آئی جیز کو تبدیل کیا گیا اداروں کو کھوکھلا کیا جارہا ہے ،ریاست اپنے کنٹرول کو مکمل کرنا چاھ رہی کیا افغانستان کا معاملہ پارلیمان میں آیا ۔ انہوںنے کہاکہ جدوجہد کی سمت واضح ہونی چاھیے ہمارا سامنا کن قوتوں کے ساتھ ہے ،بدقسمتی کی بات ہے جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں مک مکا کر کے آئی ،وہ ریاست کی قیدی بن کر اقتدار میں آتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ کہا جارہا ہے الیکٹرانک مشین کا روس میں کامیاب تجربہ رہا ہے ،روس کیمومسٹ پارٹی دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہے ،کیا ہم یہی تجربہ پاکستان میں کرنا چاھتے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ بنیادی اصلاحات کے لیے تمام فریقین کو ساتھ لے چلنا پڑتا ہے ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کر لیں لیکن فریقین ساتھ نہ ہوں تو اٴْس قانون سازی کی کیا اہمیت ہوگی ،پاکستان کے لوگ ریاست سے کٹے ہوئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ یہاں پر جو گفتگو سنی اٴْس سے ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم آئیڈیل ریاست میں رہتے ہیں ،ہم ایک ایسی ریاست میں رہ رہے ہیں جو اخلاقیات سے عاری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ بارہ سال بعد سپریم کورٹ کے جج گھر جاتے جاتے 16ہزار ملازمین کو گھر بھیج دیا ۔ انہوںنے کہاکہ ہر ادارے کی توہین کا قانون ہے ،یہاں پارلیمنٹ بے بس اور لاچار ادارہ ہے جس کی کوئی توہین نہیں ہوتی ، سینیٹ میں سوالات کے جوابات نہیں ملتے ،معلومات تک رسائی پارلیمنٹرین کو نہیں ملتی ۔

انہوںنے کہاکہ سب سے بڑی فیک نیوز یہ ہے ہم جموری ملک میں رہتے ہیں ۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ہم ریاست سے توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں ہمارے حقوق دے،ہم ایسی ریاست کے شہری ہیں جو ریاست کے مروجہ اخلاقیات کے معنی پر پورا نہیں اترتی،ہم آئین کی پاسداری نہیں کرتے،قوانین دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں،پارلیمنٹ کی کیا وقعت اور حیثیت ہی ،پارلیمنٹ کا منظور کردہ قانون تھا جس کو نظرانداز کیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ آدھی رات کو میں سویا ہوں بیل بجتی ہے، مجھے ایسے گرفتار کرلیا جاتا ہے جیسے کوئی دہشت گرد ہو،مجھے ادویات لینے دی گئیں ناں کپڑے،میرے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالی گئیں،جرم یہ بیان کیا گیا کہ میں نے گھر کرایہ پر دیا لیکن پولیس میں کرایہ دار کا اندراج نہیں کرایا یا،مجھے چودہ دن کے لئے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا،مجھے قصوری چکی میں ڈالا گیا،سات مہینے کیس چلا جس کے بعد پولیس نے کہا ایسا کوئی جرم نہیں ہوا،آج تک کچھ پتانہیں چلا میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا گیا ۔

انہوںنے کہاکہ یہاں طاقت جبر کی حکمرانی ہے،ہمارے ملک کی سب سے بڑی فیک نیوز یہ ہے کہ ہم آئین رکھتے ہیں،،بڑی فیک نیوز ہے کہ یہاں جمہوریت ہے،فیک ریاست کے فیک قوانین کے سامنے جدوجہد جاری رکھیں،عدلیہ کبھی آپ کے تحفظ کے لئے آگے نہیں آئے گی۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ پی ڈی اے بل کا کوئی مسودہ نہیں ہے ،یہ صرف مشاورتی عمل شروع کیا ہے ،صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس پر کام کریں گے ۔

انہوںنے کہاکہ فیک نیوز بہت بڑا مسئلہ ہے اس کی روک تھام ہونی چاھیے ،فیک نیوز کے حوالے سے روک تھام کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ ڈیجیٹل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کیا جانا چاہیے ،ہماری کمیٹی نے پی ڈی اے بل پر ٹیکنیکل بات چیت کی ،ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانا ہو گی ۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان آزادی رائے اور میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائیں گے ،تمام فریقین کے ساتھ مل معاملات حل ہو گئے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر سپریم کورٹ نے واضح کہا صاف شفاف کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے ،جتنے بھی الیکشن ہوئے تمام پر دھاندلی کے الزامات لگے ہیں ،الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال نا گزیر ہے ،پی ٹی آئی حکومت اپوزیشن کو بار بار موقع فراہم کر رہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تجاویز دے حالانکہ ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کر سکتے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان کرپشن کی بنیاد پر اپنے صوبائی اسمبلی کے ممبران کو فارغ کیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ،الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر الیکشن کے نظام کو ٹھیک کریں ،مل بیٹھ کر تمام فریقین کو مسائل کا حل نکالیں۔رکن اسمبلی ریاض فتیانہ نے کہاکہ معلومات تک رسائی ہر شہری کو حق حاصل ہونا چاہیے ،ایکٹ آف پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے جج نے اٴْڑا کے رکھ دیا ہے ، انہوںنے کہاکہ پولیس ، جوڈیشری اور الیکشن آصلاحات کی جائیں ۔

انہوںنے کہاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت الیکشن سے گورننس کی بات کرتی ہے ،اچھی گورننس کے لیے معلومات تک رسائی ضروری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ حکومت ،میڈیا اور ویج ایوارڈ تینوں کو بہتر کرنا ہوگا ،جمہوریت ہوگی تو صحافت آزاد ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ جمہوریت تب آزاد ہوگی جب سیاسی جماعتیں مضبوط ہوگی ،سیاست سے نظریات ختم ہوتے جارہے ہیں ،صحافیوں کی مالی حالت بہتر ہونی چاہیے ۔

انہوںنے کہاکہ ایسی قانون سازی ہو جو میڈیا ہاوسز تنخواہیں ادا نہیں کررہے اٴْن کو ریاست اپنی تحویل میں لے لے وہ تنخواہ دے۔صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ،ہماری زبان بندی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،کالے قوانین لائے جا رہے ہیں،جلد ایک تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔شفیق چوہدری نے کہاکہ بنیادی حقوق کے لیے ہم میڈیا کے ساتھ ہیں ،معلومات تک رسائی ہونی چاہیے پاکستان میں جب کوئی فوجی حکومت ہوتی ہے بولنے کی آزادی چھینتی ہے۔

رکن قومی اسمبلی صائمہ ندیم نے کہاکہ آزادی سے ہم بولنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں ،میرا تعلق صحافت سے ہے میڈیا کیلئے دل میں عزت ہے ،میڈیا کو جب بھی میری ضرورت ہو گی اٴْس کے لیے حاضر ہیں ۔پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ صوبیہ نے کہاکہ مجھے فخر میرا اٴْس سیاسی جماعت سے تعلق ہے جو غلط کو غلط اور صیح کو صیح کہتے ہیں ،میڈیا کے حوالے سے قانون بنے ہوئے ہیں صرف قانون پر عملدر آمد کرنے کی ضرورت ہے ،وزرا ء ایوان میں کھڑے ہو سوالات کے صیح جوابات نہیں دیتے ،حکومت نے ایک کروڑ نوکریا دینے کی بجائے اور لوگوں کو بے روزگار کیا ، حکومت قومی مسائل پر اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔

غزالہ سیفی نے کہاکہ بولنے والے اور لکھنے والے بہت تھوڑے ہیں ،پارلیمنٹ کا زیادہ تر بزنس شورشروبے اور ہنگامہ کی نظر ہو جاتا ہے ،شام کے جریدے میں جو نیوز ہوتی وہ بالکل پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی۔فہد حسین نے کہاکہ معلومات تک رسائی کے لیے ایک کمیشن بنا ہے لیکن وہ اقتدار کے سامنے بے بس ہے ،معلومات تک رسائی کا قانون تو پاس ہو گیا لیکن سرکاری اداروں کو ہضم نہیں ہورہا ،توشہ خانہ سے متعلق معلومات تک رسائی لینے میں کونسی خرابی ہے ،احتساب طاقتور کا نہیں کمزور کا ہونا ہے ،سیاسی جماعتوں کا اقتدار میں رویہ کچھ اور اپوزیشن میں کچھ اور ہوتا ہے روش کو تبدیل کرنا ہوگا۔

ناصر زیدی نے کہاکہ سول سپر میسی کو اولیت دینا ہو گی پچاس سال سے انہی معاملات پر بات کرتے ہیں ،ریاست کے بیانیئے کو ٹھیک کرنا پڑے گا ،سیاسی جماعتون کو مل بیٹھنا ہو گا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں