وزیراعظم عمران خان سے پوچھا گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کی جگہ ان کے ذہن میں اگر کوئی متبادل نام ہے تو وہ بتائیں

عمران خان نے جواب میں کہا کہ آرمی چیف اور جنرل فیض حمید کے سوا آرمی کی صفوں میں وہ کسی اور جنرل کو نہیں جانتے۔ سینئیر صحافی و کالم نگار سلیم صافی نے ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے کی تفصیل بتا دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 23 اکتوبر 2021 15:24

وزیراعظم عمران خان سے پوچھا گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کی جگہ ان کے ذہن میں اگر کوئی متبادل نام ہے تو وہ بتائیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 اکتوبر 2021ء) : ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کا معاملے ہر گزرتے دن کے ساتھ طول پکڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے ابہام جنم لے رہے ہیں۔ اس معاملے پر سینئیر صحافی و کالم نگار سلیم صافی نے اپنے حالیہ کالم میں تمام تر تفصیل بیان کر دی۔ جیو نیوز کے صحافی سلیم صافی نے اپنے حالیہ کالم میں بتایا کہ ڈی جی ایس آئی جنرل فیض حمید آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دست راست اور عمران خان کے ٹربل شوٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چنانچہ دونوں کی یہ مشترکہ خواہش تھی کہ وہ اگلے سال آرمی چیف کے لئے کوالیفائی کرنے والے چار سینئر لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست میں شامل ہوں۔ آرمی کی روایات اور اب نئے آرمی رولز کے مطابق یہ ضروری ہے کہ انہوں نے کم ازکم ایک سال کور کمانڈ کیا ہو۔

(جاری ہے)

چنانچہ آرمی چیف نے اس معاملے پر عمران خان سے مشاورت جولائی میں شروع کی تھی۔ عمران خان نے پہلے یہ تجویز دی کہ آئی ایس آئی کو کور بنادیا جائے لیکن انہیں بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں۔

اب وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان اپنا حق جتاتے ہیں لیکن آئی ایس آئی کا کور بن جانے کی صورت میں وہ صرف اور صرف آرمی چیف کے زیرکمانڈ رہتا اور اس سے وزیراعظم کا تعلق یکسر ختم ہوجاتا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ خواہش ظاہر کی کہ دسمبر تک انہیں رکھاجائے لیکن آرمی چیف نے ان پر دوبارہ واضح کیا اور خود جنرل فیض حمید نے بھی انہیں سمجھایا کہ اگر وہ دسمبر میں جائیں گے تو اگلے سال نومبر میں ان کے کورکمانڈ کرنے کی ایک سال کی مدت پوری نہیں ہوئی ہوگی۔

ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ جنرل فیض حمید کی جگہ ان کے ذہن میں اگر کوئی متبادل نام ہے تو وہ بتائیں لیکن ان کا جواب تھا کہ وہ آرمی چیف اور جنرل فیض حمید کے سوا آرمی کی صفوں میں کسی اور جنرل کو نہیں جانتے۔ وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں یہ کام ہونے جارہا ہے، آرمی چیف چونکہ مطمئن تھے کہ سب تقرریوں پر عمران خان کو کوئی اعتراض نہیں اور یہ کہ سب معاملات میں وہ آن بورڈ ہیں، اس لئے ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس ریلیز کو بھی پائپ لائن میں رکھا گیا تھا اور ملاقات ہوتے ہی آئی ایس پی آر نے ان کی تعیناتی کی پریس ریلیز بھی جاری کردی۔

ادھر عمران خان نے اپنی میڈیا ٹیم کے ذریعے تنازعے اور اپنی ناراضی کی خبر لیک کرادی اور ساتھ ہی کورکمیٹی اور کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس طلب کرکے یہ خبر پھیلادی کہ وہ ان فورمز پر اس ایشو کو ڈسکس کریں گے۔ سلیم صافی نے بتایا کہ آرمی چیف اور عمران خان کی ملاقات میں تلخی کی خبر سن کر خود جنرل فیض حمید ثانی الذکرکے پاس پہنچےاور سمجھا بجھا کر انہیں بتایا کہ وہ کورکمیٹی اور قومی سلامتی کمیٹی میں لے جاکر اس تنازعے کو طول نہ دیں۔

دونوں فورمزپر ڈسکس نہ کرنے کی حد تک تو انہوں نے جنرل فیض حمید کا مشورہ مان لیا لیکن نوٹیفکیشن کے لئے تیار نہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ ماضی کی طرح تنازعہ بنا کر وہ عسکری اداروں کو دبائو میں لے آئیں گے اور آخرمیں مان لیا جائے گا کہ چلو ٹھیک ہے آپ جو چاہتے ہیں کر لیں لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچاکہ ماضی کی طرح یہ سیاست کا نہیں بلکہ فوج کے ادارے کے ڈسپلن، روایات اور وقار کا مسئلہ ہے۔

اسی طرح ایک طرف اگر ان کی خواہش تھی تو دوسری طرف پورے ادارے کا وقار تھا۔ جنرل فیض حمید نے دو تین دن تک شٹل ڈپلومیسی کی لیکن جب عمران خان بات نہ مانے تو انہوں نے یہ پیغام دیا کہ وہ مقررہ تاریخ پر پشاور کے کورکمانڈر کے طور پر چارج لینے جائیں گے اور اگر انہیں روکا گیا تو وہ مستعفی ہوجانے کو ترجیح دیں گے۔ چنانچہ عمران خان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہا ، سوائے اس کے کہ جو فیصلے ہوئے ہیں، انہی پرہاں کردیں۔

انہوں نے اپنے کالم میں مزید کہا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف سے بھی وعدہ کیا ہے اور ثالثی کرنے والے اپنے وزرا سے بھی کہ وہ جنرل ندیم انجم کے نام ہی کی منظوری دیں گے لیکن جب ان سے دستخط کا تقاضا کیا جاتا ہے تو عمران خان چند روز صبر کا کہتے ہیں لیکن اس صبر کی منطق نہ وہ اپنے وزرا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں اور نہ ان کے وزرا قوم کو سمجھا سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں