وفاقی شریعت کورٹ نے صلح ہونے پر عورت فریق کو دینے کی رسم ''سوارہ'' غیر اسلامی قرار دے دی

صلح ہونے پر عورت فریق کو دینےکی رسم سوارہ غیر اسلامی ہے، سوارہ کی رسم اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ عدالت

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 26 اکتوبر 2021 10:43

وفاقی شریعت کورٹ نے صلح ہونے پر عورت فریق کو دینے کی رسم ''سوارہ'' غیر اسلامی قرار دے دی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26 اکتوبر 2021ء) : وفاقی شریعت کورٹ نے دو فریقین میں صلح ہونے پر ایک فریق کی عورت دوسرے فریق کو دینے کی رسم ''سوارہ'' کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ چیف جسٹس وفاقی شریعت کورٹ محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل فل بینچ نے گزشتہ روز فیصلہ سنایا۔

سوموار کے روز درخواستگزارسکینہ بی بی کی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا ہے کہ لڑائی جھگڑوں میں بدلِ صلح کے طور پرغیرشادی شدہ عورت کا رشتہ دینے کی بھیانک رسم ونی یا سوارہ غیراسلامی ہے۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ صلح ہونے پر عورت فریق کو دینے کی رسم سوارہ غیر اسلامی ہے، سوارہ کی رسم اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

(جاری ہے)

قرآنی آیات اور احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں یہ رسم، جو ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے رائج ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سوارہ کی رسم کے خلاف اسلام ہونے پر جمہور علما کا اجماع ہے۔ عدالت نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت سوارہ رسم کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ سوارہ کی رسم جس میں عورت کوبدل صلح کے طور پر دیا جاتا ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے رائج چلی آ رہی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نےتعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت اس رسم کو قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے لیکن پھر بھی ملک کےمختلف علاقوں میں یہ رواج موجود ہے،اس رسم کوپنجاب میں ونی جبکہ خیبرپختونخوا میں سوارہ کہا جاتا ہے۔              

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں