سپریم کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما و رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کرلی

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت 4 لاکھ روپے زر ضمانت کے عوض ضمانت منظورکی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 30 نومبر 2021 14:25

سپریم کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما و رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کرلی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 نومبر ۔2021 ) سپریم کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما و رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کرلی ہے خیال رہے کہ رکن پارلیمنٹ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی.

(جاری ہے)

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی اور 4 لاکھ روپے زر ضمانت کے عوض ضمانت منظور کرلی سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ شریک ملزمان کی ضمانت ہوچکی جسے چیلنج نہیں کیا گیا تو علی وزیر کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا دوران سماعت جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ریاست مذاکرات کرکے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے ہو سکتا ہے کل علی وزیر کے ساتھ بھی معاملہ طے ہو جائے.

جسٹس سردار طارق نے مزید ریمارکس دیے کہ لوگ شہید ہو رہے ہیں کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی؟ کیا عدالت صرف ضمانتیں خارج کرنے کے لیے بیٹھی ہیں؟علاوہ ازیں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟ علی وزیر نے شکایت کی تھی ان کا گلہ دور کرنا چاہیے تھا. جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اپنوں کو سینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟ علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟انہوں نے ریمارکس دے کہ شریک ملزمان کے ساتھ رویہ دیکھ کر گڈ طالبان بیڈ طالبان والا کیس لگتا ہے پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ رکن پارلیمنٹ علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں اور ان کی کسی اور مقدمے میں ضمانت نہیں ہوئی.

جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ کسی اور کیس میں ضمانت نہیں ہے تو اسے سنبھال کر رکھیں، علی وزیر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا، وہ دفعہ کیوں لگائی ہے؟علی وزیر کے وکیل نے کہا کہ علی وزیر نے تقاریر میں صرف شکایت کی تھی، علی وزیر کی پشتو تقریر پر سندھی پولیس افسر نے مقدمہ کیسے درج کر لیا؟اس موقع بینچ میں شامل جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے واضح ہے کہ مقدمہ ترجمہ کرانے کے بعد درج ہوا.

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کے خلاف پی ٹی ایم کے رہنما و رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست 10 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی لیکن اس حوالے سے جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ غلطی سے لسٹ میں کیس دوسرے بنچ میں شامل کر دیا گیا تھا خیال رہے کہ پولیس نے سندھ پولیس کی درخواست پر علی وزیر کو پشاور سے 16 دسمبر 2020 کو گرفتار کر کے کراچی منتقل کردیا تھا.

انہیں 6 دسمبر 2020 کو کراچی میں نکالی گئی پی ٹی ایم کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور تضحیک آمیز الزامات لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا مذکورہ ریلی کے اگلے روز سہراب گوٹھ پولیس تھانے میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا. زیر حراست رکن قومی اسمبلی نے فروری میں انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے درخواست میں علی وزیر کو سازش، ریاست کے خلاف اعلان جنگ، صدر اور گورنر پر حملے، مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کے فروغ، قانون کی خلاف ورزی اور بغاوت کے لیے افواہین پھیلانے جیسے جرائم سے منسلک کرنے کے لیے آزاد ثبوت فراہم کیے جانے کا کہا اپیل میں کہا گیا کہ علی وزیر کو حکمراں جماعت سے سیاسی دشمنی کی وجہ سے گرفتار کر کے مقدمے میں پھنسایا گیا.


اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں