رانا شمیم کا بیان حلفی پیر تک نہ آیا تو فرد جرم عائد کریں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ

بیانیے کے ذریعے اس ہائیکورٹ پر دباؤ ڈالا گیا، اخبار نےخبر شائع کردی کہ جج کوفون کرکے کہا گیا شخصیت کورہا نہیں کرنا، اس سے یہ رائے بنائی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججزنے سمجھوتا کیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 7 دسمبر 2021 12:30

رانا شمیم کا بیان حلفی پیر تک نہ آیا تو فرد جرم عائد کریں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 07 دسمبر 2021ء) : اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی جس میں سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم پیش ہوئے۔ رانا شمیم نے عدالت میں پیش ہو کر شوکاز نوٹس پر اپنا جواب جمع کروایا۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ جواب ابھی تک عدالت میں تو داخل نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے عدالتی معاون فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ خبرشائع کرنے پرمختلف ذمہ داروں کی کیا ذمہ داری ہے؟ ہم نے صحافت سے متعلق بین الاقوامی معیارات کوبھی دیکھنا ہے۔ جس پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ پرائیویٹ ڈاکومنٹ تھا اس نے پبلش کرنے کے لیے نہیں رکھا تھا ، رانا شمیم نے کہا کہ پبلش ہونے کے بعد اس سے رابطہ کیا گیا ، خبر دینے والے صحافی کا کہنا ہے کہ اس نے خبر شائع ہونے سے پہلے رابطہ کیا تھا۔

(جاری ہے)

عدالت نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنا جواب جمع کروایا ہے؟ اس پر سابق جج رانا شمیم نے جواب دیا کہ میرے وکیل راستے میں ہیں وہ ابھی پہنچنے والے ہیں۔ رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ میں نے چار دن پہلے جواب دے دیا تھا، وہ جواب عدالت میں لطیف آفریدی صاحب کوجمع کروانا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ریما عمر کیا آئی ہیں ؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ریما عمر نہیں آئی لیکن اس نے اپنا بریف عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کے قوانین مفاد عامہ کو تحفظ کرتے ہیں ، ہم ججز پریس کانفرنسز نہیں کر سکتے ، ایک بیانیہ بننا شروع ہو گیا تھا ، کہ ایک خاص آدمی کو الیکشن سے پہلے ضمانت نہیں دی جائے گی کیونکہ ججز دباؤ میں ہیں ، سابق جج رانا شمیم نے تین سال بعد بیان حلفی دیا اور جس جج کا کہا وہ اس دوران چھٹی پر تھا، اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب موجود تھے، دو ہفتے کے بعد ایک اور بنچ جس میں میں موجود تھا جس نے ریلیف بھی دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے، میں دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں اس عدالت کے ججزکوکوئی اپروچ نہیں کرسکتا، میرے کسی جج نے کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا، اگر انہوں نے کہیں پر اوریجنل ڈاکومنٹ جمع نہیں کروایا تو وہ عدالت میں پیش کریں، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اس عدالت پرعوام کا اعتماد ختم کیا جائے، کوئی آزاد جج یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ اس پر کوئی دباؤ تھا۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شائع ہونے والی خبر سے تاثر لگا کہ اس ہائیکورٹ کے سارے ججز کمپرومائز تھے، میں نے ان سے پوچھا انہوں نے یوکے میں کیوں بیان حلفی دیا؟ اگر ان کا ضمیر جاگ گیا تھا تو کسی فورم پر جمع کرتے ؟ مقصد کیا تھا ؟ لاکر میں تو کوئی نہیں کرتا، آپ کے کلائنٹ نے ثابت کرنا ہے ان کا عمل بدنیتی پر مبنی نہیں تھا ، کوئی جج یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ پریشر میں تھا اگر پریشر لیتا ہے تو وہ آزاد جج نہیں ہے، اگر جج کے اندر اعتماد نہیں تو کسی اور پر اس کا الزام نہیں لگا سکتا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اصل بیان حلفی کدھر ہے؟ رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ بیان حلفی برطانیہ میں ان کے پوتے کے پاس ہے، لیکن میرے کلائنٹ کا اپنے پوتے سے رابطہ نہیں ہو پارہا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جہاں بھی ہے اصل بیان حلفی آپ دیکھا دیجئے گا ، اگر کسی اور مقصد کے لیے بیان حلفی تھا اور شائع کرنے کے لیے بھی نہیں دیا تو اس کے اثرات دونوں پر ہوں گے، آپ کا کلائنٹ اصل بیان حلفی جمع کرانے سے ہچکچا رہا ہے ۔

رانا شمیم کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ میرے کلائنٹ نے بیان حلفی کے متن سے کوئی انکار نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں اصل ڈاکومنٹ خود لارہے ہیں یا پاکستانی سفارتخانے کو دیں گے؟ لطیف آفریدی نے کہا کہ رانا شمیم نے بیان حلفی سے انکار نہیں کیا، تاہم انہوں نے بیان حلفی شائع ہونے کے لیے نہیں دیا، رانا شمیم کے بیٹے کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

جس پر عدالت نے کہا کہ برطانیہ میں کون اسے ہراساں کر سکتا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ینگ مین کو یوکے میں کس نے ہراساں کیا ہے؟ کون ان کو ہراساں کر رہا ہے، یہ اب انہیں بتانا ہو گا کہ پاکستان سے باہر انہیں کون ہراساں کر رہا؟ انہیں بیان حلفی پاکستانی سفارتخانے کو دینا تھا، اصل بیان حلفی کہاں ہے ، آج سماعت میں بیان حلفی نہ ہونے کا تاثر ابھرا ہے۔

وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ ان کو جانے دیں وہ اصل بیان حلفی لے آئیں گے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نہیں نہیں وہ نہیں جا سکتے، مسئلہ ہی یہ ہے کہ جو کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے اس وقت ضمیر نہیں ہوتا ، میں چیلنج کرتا ہوں کہ میرے کسی جج نے کبھی کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا ،سابق چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق ہمارا واسطہ نہیں۔ یہ میرا احتساب ہے میری ہائیکورٹ کا احتساب ہے ہم سب کو Accountable ہونا چاہئیے۔

اخبار نےخبر شائع کردی کہ جج کوفون کرکےکہاگیا شخصیت کورہا نہیں کرنا، رائے بنائی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججزنے سمجھوتا کیا ہوا ہے۔، آپ کیاچاہتے ہیں کہ مجھ سمیت تمام ہائیکورٹ ججزکےخلاف انکوائری شروع ہوجائے؟وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ میرا کلائنٹ کہتا ہے جو بیان حلفی شائع ہوا ہے اس کے متن سے وہ متفق ہے۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر پیرتک اصل بیان حلفی پیش نہ کیاگیا تو رانا شمیم پر فرد جرم عائد کر دی جائے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزیر سماعت کو پیر تک ملتوی کر دیا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں