بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے جو تصادم کی طرف کھنچ رہی ہے،نئی مخالفتیں اور رقابتیں جنم لے سکتی ،شاہ محمود قریشی

جنوبی ایشیاء میں سٹرٹیجک استحکام کیلئے جوہری صلاحیتوں سے متعلق متفقہ طور پر طے شدہ پابندیاں اور روایتی افواج ناگزیر ہیں، وزیر خارجہ کا خطاب

جمعرات 9 دسمبر 2021 15:08

بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے جو تصادم کی طرف کھنچ رہی ہے،نئی مخالفتیں اور رقابتیں جنم لے سکتی ،شاہ محمود قریشی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2021ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے جو تصادم کی طرف کھنچ رہی ہے،نئی مخالفتیں اور رقابتیں جنم لے سکتی ،جنوبی ایشیاء میں سٹرٹیجک استحکام کیلئے جوہری صلاحیتوں سے متعلق متفقہ طور پر طے شدہ پابندیاں اور روایتی افواج ناگزیر ہیں،ہمیں قومی سلامتی حکمت عملی میں انسانی سلامتی کو مرکزیت دینے کی ضرورت ہے، سلامتی پر مبنی پالیسیز سے خطے میں ترقی اور خوش حالی کی طرف جانا ہوگا، پاکستان کی معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ’سی پیک‘ خطے کو جوڑنے کیلئے بھی ایک اہم راستہ ہے،عمران خان حکومت قومی سلامتی کیلئے لاحق اس سنگین خطرے کا اداراک کرتے ہوئے ان اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہے،جنوبی ایشیاء کی خوش حالی کے لئے خطے میں علاقائی تعاون لازم ہے۔

(جاری ہے)

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پرامن اور خوش حال جنوبی ایشیاء کے عنوان سے اسلام آباد کانکلیو2021 سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مجلس کا اہتمام کیا ہے۔ یہ لائق تحسین اقدام ہے۔ انہوںنے کہاکہ انسٹی ٹیوٹ نے وژن 2023 پر عمل درآمد کے ضمن میں نمایاں پیش رفت کی ہے،اسلام آباد کانکلیو ان کئی اقدامات میں سے ایک ہے جو انسٹی ٹیوٹ نے تحقیق اور مکالمے کے ذریعے پاکستان کے نکتہ نظر کے فروغ دینے کے لئے اٹھائے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد کانکلیو‘ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والے پانچ مراکز،فضیلت (Centers of Excellence) کی پانچ سالہ کاوشوں کا نکتہ عروج ہے۔ اس کے ذریعے ممتاز پاکستانی و بین الاقوامی ماہرین کو دو روزہ مکالمے کے لئے جمع کیاگیا ہے جو مختلف نشستوں میں شرکت اور اظہار خیال فرمائیں گے۔ انہوںنے کہاکہ میری کوشش ہوگی کہ عالمی اور علاقائی منظر نامے کے وسیع بیانیہ کو آپ کی خدمت میں عرض کروں اور پھر امن وترقی کے لئے پاکستان کی سوچ اور بصیرت کا خاکہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔

انہوںنے کہاکہ ہماری دنیا تبدیل ہورہی ہے کثیرالقومیت کے نظریہ کو تنہائی پسندی یا یک طرفہ سوچ کی قوتیں توڑ رہی ہیں انہوںنے کہاکہ ممالک قوم پرستانہ ایجنڈوں کی طرف لوٹ رہے ہیں، طاقت کا اظہار ایک نیا معمول بنتا جارہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے جو تصادم کی طرف کھنچ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں نئی مخالفتیں اور رقابتیں جنم لے سکتی ہیں اور دنیا کو پھر سے ’دھڑوں‘ کی سیاست کی نذر کررہی ہیں۔

ایک نئی سردجنگ کا ظہور ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہتھیاروں کے انباروں میں اضافہ اور نئی ابھرتی ہوئی جنگی ٹیکنالوجی سے حربی امور کے بنیادی تقاضے ہی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جارحانہ جنگی نظاموں کے منظر عام پر آنے، اشتعال انگیز نظریات کی رونمائی اور جارحانہ جنگی قوت کا اظہار، کشیدگیوں کو بڑھانے اور فوجی مہم جوئی جیسے عوامل، پہلے سے سٹرٹیجک عدم استحکام کے شکار ہمارے خطے کے لئے مزید خطرات کا موجب بن رہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ جنوبی ایشیاء میں سٹرٹیجک استحکام کے لئے جوہری صلاحیتوں سے متعلق متفقہ طور پر طے شدہ پابندیاں اور روایتی افواج ناگزیر ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جنوبی ایشیاء دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے جہاں نیٹ سکیورٹی پروائیڈر جیسے نظریات کا فروغ پانا، خطے کے دیگر ممالک کے جائز سیاسی، معاشی اور سلامتی کے مفادات سے کلیتاً صرف نظر کرنا ہے،یہاں کے عوام کے درمیان استوار تاریخی، ثقافتی، لسانی، نسلی اور جغرافیائی رابطوں سے قطع نظر، جنوبی ایشیاء تنازعات، جنگی جنون اور عدم اعتماد میں پھنسا ہوا ہے۔

انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تنازعہ جموں وکشمیر ایک دیرینہ اور قدیم ترین مسئلے کے طورپر موجود ہے جو تاحال کشمیر کے بہادر عوام کی امنگوں کے مطابق حل کا منتظر ہے، اس قضیہ کی آگ جوہری فلیش پوائنٹ میں بدلنے کا احتمال رکھتی ہے جو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے تباہ کن ہوگا۔انہوںنے کہاکہ یہ خطہ چین اور بھارت کے درمیان جنگی محاذ آرائی، نیپال اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان آبی تنازعہ کا مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔

انہوںنے کہاکہ سری لنکا نے اپنی تاریخ کے 25 سال میں خونریز بغاوت کا سامنا کیا ہے۔ افغانستان چار دہائیوں سے تنازعے سے گزرتا آرہا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمیں قومی سلامتی حکمت عملی میں انسانی سلامتی کو مرکزیت دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی سلامتی پر مبنی پالیسیز سے خطے میں ترقی اور خوش حالی کی طرف جانا ہوگا۔ یہ ہے وہ حقیقی چیلنج جس کا آج جنوبی ایشیاء سامنا کررہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان نے اپنی توجہ تبدیل کرکے جیواکنامکس کی طرف مبذول کی ہے۔ خطے کو جوڑنا آج کا وہ لفظ ہے جسے مرکزیت ومقبولیت حاصل ہے۔ یہ ہمیں قومی اور علاقائی ترقی کے لئے بے پناہ مواقع فراہم کرسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کراچی اور گوادر بندرگاہوں کے ذریعے چین کے مغربی حصوں اور وسط ایشیائی جمہوریتوں کی عالمی سمندروں تک رسائی کا مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان اور چین کی سدا بہار سٹرٹیجک کوآپریٹو شراکت داری کا طرہ امتیازچین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) رابطوں کی استواری کا ایک بہترین اور مثالی منصوبہ ہے۔انہوںنے نکہاکہ پاکستان کی معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ’سی پیک‘ خطے کو جوڑنے کیلئے بھی ایک اہم راستہ ہے،جنوبی ایشیاء کی خوش حالی کے لئے خطے میں علاقائی تعاون لازم ہے۔

انہوںنے نکہاکہ سارک کو تنگ نظر سیاسی ایجنڈوں سے آزاد کرکے زندہ وفعال کرنے کی ضرورت ہے،بدقسمتی سے خطے کے اندر تجارت انتہائی کم ہے، تجارت، شاہراتی نظام اور رابطوں میں حائل رکاوٹیں اور پابندیاں دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان نے کسی عالمی یا علاقائی تنازعے کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور صرف امن وترقی میں شریک کار رہنے کی راہ منتخب کی ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان اجتماعیت اور تعاون کی حامل سوچ وفکر پر مبنی وسیع تر معاشی واقتصادی شراکت داری پر زور دے رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بہت سارے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو معاشی سٹرکچرل وجوہات سے پیدا ہونے والے بہت سارے غیرروایتی سکیورٹی مسائل کا سامنا ہے جن میں ماحولیاتی تغیر، غذا، توانائی اور آبی بحران، آبادی میں اضافے، بے محابہ شہروں کے بڑھنے اور غربت جیسے مسئلے شامل ہیں۔

انہوںنے کہاکہ نہایت فوری نوعیت کی تشویش کا باعث بننے والا مسئلہ، ماحولیاتی تغیر کا ہے جس کے براہ راست اثرات غذا اور آبی سلامتی پر ہوتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان حکومت قومی سلامتی کے لیے، لاحق اس سنگین خطرے کا اداراک کرتے ہوئے ان اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ تجارت وسرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی ترقی، انرجی سکیورٹی، زراعت، سیاحت میں تعاون اور عوامی رابطوں میں اضافہ ہماری ترجیحات ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہماری بنیادی دلچسپی پرامن اور مستحکم ’عالمی نظم‘ (انٹرنیشنل آرڈر) ہے جو سب کو اعتماد میں لے کر چلے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان پرامن بقائے باہمی، تعاون پر مبنی کثیرالقومیت اور اتفاق رائے کی حامل فیصلہ سازی کے اصولوں کے عزم پر کاربند ہے۔ انہوںنے کہاکہ خطے اور دنیا میں امن، ترقی اور خوش حالی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے ہم اجتماعیت کے حامل عالمی نظام (گلوبل آرڈر) کی ہمیشہ حمایت جاری رکھیں گے۔

انہوںنے کہاکہ ہم بیانیوں کے دور میں جی رہے ہیں، پاکستان کے بیانیوں کی تشکیل اور ان کا فروغ ہم سب کے لئے ایک قومی ذمہ داری ہے۔ فیصلہ سازوں اور محقیقین کے درمیان خلیج کو پاٹنا ہوگا اور اتفاق رائے کے حامل بیانیوں کو پیش کرنا ہوگا، ’اسلام آباد کانکلیو‘ جیسے فورمز اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میں اس مجلس سے سامنے آنے والی سفارشات سے استفادہ کے لئے منتظر ہوں،میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں