حکومتی اتحاد میں دراڑیں نون لیگ ‘پیپلزپارٹی‘ایم کیوایم اور جے یوآئی(ف)منظرنامے پر باقی جماعتیں لاتعلق‘مخلوط حکومت کی تین بڑی جماعتیں بھی” اونرشپ“ لینے پر آمادہ نہیں اقتدار میں رہنے کی صورت میں نون لیگ کو اکیلے مشکل فیصلوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا. مبصرین

مسلم لیگ نون کی قیادت سمجھتی ہے کہ بجٹ میں جس حد تک ممکن ہوریلیف کے اعلانات کرنے کے بعد نگران حکومت کے قیام کی طرف جایا جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں اسے کسی حد تک عوامی ہمدردیاں حاصل رہیں‘ بے یقینی کی اس صورتحال کا نقصان ملک ہورہا ہے اسٹیک ہولڈرزکو چاہیے کہ فوری طور پر مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں ‘بیک ڈور چینل رابطوں میں کسی حد تک برف پگھلی ہے صرف انتخابات کے لیے تاریخ طے ہونا باقی ہے . سنیئرصحافیوں فرح سعید خواجہ‘شہبازمیاں‘ودودمشتاق‘رانا محمد عظیم ‘شہزاد فاوقی اور دیگر کی ”اردوپوائنٹ“سے خصوصی گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 18 مئی 2022 01:10

حکومتی اتحاد میں دراڑیں نون لیگ ‘پیپلزپارٹی‘ایم کیوایم اور جے یوآئی(ف)منظرنامے پر باقی جماعتیں لاتعلق‘مخلوط حکومت کی تین بڑی جماعتیں بھی” اونرشپ“ لینے پر آمادہ نہیں اقتدار میں رہنے کی صورت میں نون لیگ کو اکیلے مشکل فیصلوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا. مبصرین
اسلام آبادلاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 مئی ۔2022 ) حکومتی اتحاد نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فوری الیکشن کی تاریخ دینے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے یہ فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زہر صدارت منعقدہ اتحادیوں کے اجلاس میں کیا گیا اجلاس میں مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری، خالد مقبول صدیقی، وفاقی وزراءمیں اعظم نذیر تارڑ، خواجہ آصف، سعد رفیق اور مریم اورنگزیب بھی شریک ہوئے اخترمینگل اور اے این پی ‘بی این پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے سربراہان کواجلاس میں دعوت نہیں دی گئی یا وہ خود سے شریک نہیں ہوئے اسلام آباد میں سیاسی مبصرین اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر حکومتی ترجمانوں کی جانب سے ابھی تک اس کاکوئی جواب سامنے نہیں آیا.

وزیراعظم ہاﺅس میں منعقدہ اہم اجلاس کے حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ شرکا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا اور طے کیا کہ فیصلے پر باقاعدہ ردعمل سے قبل قانونی ماہرین اور اٹارنی جنرل سے رائے لی جائے گی . نجی ٹی وی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اجلاس میں اتحادیوں نے ملکی معیشت کے استحکام کی خاطر فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا اور الیکشن سے قبل اصلاحات کا عمل بھی جلد مکمل کرنے پر زور دیا ہے ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے کے بعد پنجاب کی صورتحال پر بھی غور و خوص کیا گیا.

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کہ اس حوالے سے نون لیگ علیحدہ سے بھی مشاورت کرے گی جب کہ اتحادیوں نے سیاسی بحران اور معاشی استحکام کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی. وزیراعظم شہبازشریف نے پیرکے روز اس سلسلہ میں اہم ملاقاتیں کی تھیں ایم کیو ایم کے راہنما مقبول صدیقی نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ان کی جماعت نے فوری انتخابات کی تجویزدی ہے بلکہ صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں نے بہت سارے گلے شکوے بھی کیئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ تحریک انصاف انہیں اتحادی حکومت سے زیادہ اہمیت دیتی تھی اور ان کے کام ہوتے تھے.

پیر کے روز ہی آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقاتوں کے حوالے سے نجی ٹیلی ویژن چینلز نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمان بھی فوری انتخابات کے حق میں ہیں تاہم آصف علی زرداری اس معاملے میں مختلف موقف رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں جبکہ مسلم لیگ نون کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلیوں کی مدت پوری کروانی ہے تو اتحادی جماعتیں بھی اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائیں.

نون لیگ کے ایک دھڑے میں خیال پایا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی جماعت کی حکومت کومزید ڈیڑھ سال دینے کے لیے فوری انتخابات کے حق میں نہیں . سنیئرصحافی وتجزیہ نگار ہارون رشید جن کا شمار سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں دعوی ہے کہ اتحادی حکومت رواں ماہ کے دوران ہی ختم ہونے جارہی ہے ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے کئی منحرف اراکین قومی و پنجاب اسمبلی نے ان سے رابط کرکے کہا کہ انہیں عمران خان سے معافی دلائی جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں ان کو تحریک انصاف کا ٹکٹ مل سکے.

ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائداعظم اور لیاقت علی جناح کے علاوہ تمام فوجی آمر یا سول حکومتیں آئین شکن رہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان آئین و قانون کی پیروی کا مزاجاً قائل ہی نہیں ہیںلہٰذا تحریک انصاف کے لیے یہ معاملہ سیاسی طور پر کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنے گا . انہوں نے کہا کہ آئین شکنی ایک بہت سنگین بات ہے کیونکہ اگر آئین کو سپریم نہیں مانا جاتا تو ملک میں معاشرہ کبھی پر امن نہیں ہو سکتا انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں آئین نافذ کرنے والے سول ادارے کبھی طاقتور رہے ہی نہیں، پولیس، سول سروس، عدلیہ ہمیشہ کمزور رہے ہیں پاکستان میں طاقت ہمیشہ جرنیل اور جاگیردار کے پاس رہی ہے یا ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سیاستدانوں کے پاس .

ادھر تجزیہ نگار شاہدمسعود نے دعوی کیا ہے کہ حکومتی اتحاد اور مقتدرحلقوں میں نگران حکومت کے لیے ناموں پر غور شروع کردیا ہے مسلم لیگ نون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ نون کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے اور وہ نون لیگ سے غیرمقبول فیصلے کروا کر انہیں آئندہ انتخابات سے آﺅٹ کردیا جائے. لندن میں جیو نیوزکے نمائندے اور سنیئرصحافی ودودمشتاق نے ”اردوپوائنٹ“سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اتحادیوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوپارہانہ ہی معاشی مسائل حل ہورہے ‘ مہنگائی بے قابو ہورہی ہے اس ساری صورتحال سے نقصان نون لیگ کو ہوا انہوں نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ نوازشریف فوری انتخابات کے حامی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک تحریک انصاف حکومت کے غلط فیصلوں کا بوجھ اٹھانا دانشمندی نہیں تاہم کسی حد تک شہبازشریف وزارت عظمی اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہبازوزارت اعلی میں رہنے کے خواہش مند ہیں انہوں نے کہا کہ مریم نواز جس”ٹوکرے“کا بار بار ذکرکررہی ہیں اور اپنی جماعت کومخاطب کرکے فوری انتخابات کی طرف جانے کا کہہ رہی ہیں وہ نوازشریف کا بیانیہ ہے جسے وہ آگے بڑھا رہی ہیں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں آج کی ملاقات کے فیصلوں کا حال بھی میثاق جمہوریت اور معاہدہ بھوربن جیسا ہوگا.

سنیئرصحافی وودود مشتاق نے کہا کہ آج کے اجلاس میں 7/8اتحادی جماعتوں میں سے صرف تین جماعتوں پیپلزپارٹی‘ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کو وزیراعظم سے مشاورت کے لیے دعوت دی گئی باقی جماعتیں کہاں ہیں؟وہ مشاورت میں کیوں شریک نہیں ہوئیں اس طرح کے بہت سارے سوال ہیں جن کے جواب تلاش کرنا باقی ہیں انہوں نے کہا کہ مشکل فیصلے کرنے سے اتحادی جماعتوں کے لیے اگلے عام انتخابات میں عوام کے سامنے جانا مشکل ہوگا لہذا وہ ”اونرشپ“لینے کو تیار نہیں جمعیت علمائے اسلام(ف) اور پیپلزپارٹی سمیت تمام اتحادی جماعتیں مشکل فیصلوں کا بوجھ مسلم لیگ نون پر ڈالنا چاہ رہی ہے انہوں نے کہا کہ لندن اجلاس میں نون لیگی راہنماﺅں کی اکثریت نوازشریف کے موقف کی حامی ہے انہوں نے کہا کہ اس بات سے انکارنہیں کیا جاسکتاکہ شریف خاندان میں تقسیم موجود ہے لہذا پارٹی سمیت سیاسی اور مقتدر حلقوں کو پیغام دینے کے لیے ہی نوازشریف نے ذاتی طور پر وزیراعظم اور کابینہ اراکین کا اجلاس لندن میں بلایا تاکہ وہ واضح طور پر یہ پیغام دے سکیں کہ پارٹی میں اصل پاور ان کے پاس ہے ورنہ ماضی میں وہ پارٹی کے اجلاسو ں کی ویڈیولنک کے ذریعے صدارت کرتے رہے ہیں .

سنیئرصحافی ‘کالم نگار اور روزنامہ”نوائے وقت “کے سابق ایڈیٹر رپورٹنگ فرخ سعید خواجہ نے ”اردوپوائنٹ“سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ موجودہ انتحادی حکومت کی حالت اس سانپ جیسی ہے جس کے منہ میں چھپکلی آگئی ہے اگر وہ اسے نگلے گا تو زہر سے مرجائے گا اور چھوڑنے سے بھوک کے ساتھ انہوں نے کہا کہ حکومت کو مشکل فیصلے لینا پڑیں گے شارٹ ٹرم حل کے طور پر نون لیگ سمجھتی ہے کہ اگر نگران حکومت آتی ہے تو اسے آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی مگر ملکی معیشت تباہ ہوجائے گی اس لیے نون لیگ کو کڑواگھونٹ پینا پڑے گا مسلم لیگ نون کی قیادت سمجھتی ہے کہ بجٹ میں جس حد تک ممکن ہوریلیف کے اعلانات کرنے کے بعد نگران حکومت کے قیام کی طرف جایا جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں اسے کسی حد تک عوامی ہمدردیاں حاصل رہیں‘انہوں نے کہا کہ بجٹ پیش کیئے بغیرسب کچھ نگران حکومت کے حوالے کرنے سے کسی اتحادی جماعت کا کچھ نہیں بگڑے گا مگر نون کو لیگ سیاسی طور پرناقابل تلافی نقصان ہوگا.

فرح سعید خواجہ نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد انتخابات کی طرف جایا جائے گا انہوں نے کہا کہ انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوگا اس وقت بھی اگر نگران حکومت قائم کی جاتی ہے تو عام انتخابات اکتوبر نومبر میں ممکن ہونگے کیونکہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں 7ماہ کا وقت مانگا تھا عام اتخابات کروانے کے لیے اس حساب سے بھی سات ماہ نومبر میں جاکر پورے ہوتے ہیں.

سنیئرصحافی وتجزیہ نگا رسیکرٹری جنرل فیڈرل یونین آف جرنلسٹس رانامحمد عظیم ”اردوپوائنٹ“سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سارے معاملات عجلت میں طے ہوئے ہیں عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں دراڑ یں ان کے دورہ ایران کے بعد سے آنا شروع ہوئی تھیں سابق وزیراعظم کے دورہ ایران کے بعد برادر عرب ممالک اور معربی قوتوں نے مقتدرحلقوں کو پیغام دیا تھا اس کے بعد یہ تعلقات اتارچرھاﺅ کا شکار رہے ہیں جہاں تک فوج کی کمان میں تبدیلی کی افواہیں ہیں تو جنرل باجوہ پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ وہ مزیدتوسیع لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے لہذا نومبر میں جنرل فیض حمید آرمی چیف بنیں یا کوئی اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے .

سنیئرصحافی اور لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے ”اردوپوائنٹ“سے خصوصی گفتگو میں کہاکہ انتہائی بے یقینی کی صورتحال ہے ہر لمحہ نئی ڈویلپمنٹ سامنے آرہی ہے بے یقینی کی اس صورتحال کا نقصان ملک ہورہا ہے لہذا تمام اسٹیک ہولڈرزکو چاہیے کہ فوری طور پر مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں انہوں نے ڈالر سنبھل رہا ہے نہ ہی اسٹاک مارکیٹ لہذا ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مزید انتظار نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے فریقین مذکرات کی میزپر بیٹھیں.

اعظم چوہدری نے کہا کہ سیاسی غیریقینی صورتحال ختم کرنے کی ضرورت ہے، مہنگائی مکاﺅ مارچ سابق اپوزیشن اور موجودہ حکومت کے گلے پڑگیا ہے،آپ پیٹرول پمپ پر قیمت دو نہیں رکھ سکتے کہ یہ موٹرسائیکل یہ رکشے کے لیے اور یہ گاڑی کے لیے ریٹل پوائنٹ پر دوقیمتوں کا تجربہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتا. انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں حکومت کو ٹارگٹڈ سبسڈی کی طرف جانا پڑے گا پاکستان سری لنکا یا لبنان نہیں کہ دیوالیہ ہوجائے گا ہماری پوزیشن ابھی بھی ان ملکوں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے 1998کے ایٹمی دھماکوں کے بعد حالات زیادہ خراب ہوئے لیکن پاکستان نے کم بیک کیا اب بھی درست فیصلوں سے ہم کم بیک کرسکتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات موجودہ حکومت طے کرے گی، نگراں حکومت یا الیکشن جیت کر آنے والی حکومت کرے گی انہوں نے پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کے امکان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک اس کا دور دور تک کوئی امکان موجود نہیں ہے. تجزیہ نگاراور لاہور پریس کلب کے سابق صد شہبازمیاں انتخابی اصلاحات بھی کرنی ہیں جون یا جولائی کے بعد عام استعمال کی اشیاءکو سستا کیا جائے اورامیروں پر جوجھ بڑھایا جائے مگر اسمبلیوں میں موجود اس منصوبے کو اشرافیہ کے نمائندے کامیاب ہونے دیتے ہیں یا نہیں دوسری صورت میں متوسط طبقے اور چھوٹے کاروباری حضرات کو ”امیر“ڈکلیئرکرکے سارا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے گا جس سے نون لیگ کا ووٹ بنک متاثر ہوگا .

انہوں نے لاہور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں چھوٹے کاروباری اور متوسط طبقہ مسلم لیگ(ن)کا پکا ووٹرہے اگر اس پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالاگیا تو وہ ناراض ہوجائے گا فرض کریں نون لیگ کا ناراض ووٹر کسی کو بھی ووٹ نہیں دیتا اور گھر بیٹھ کر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے تو بھی نقصان نون لیگ کو ہوگا اور ان کے ”قعلے“میں شگاف پڑجائیں گے تحریک انصاف کی جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ سے باآسانی لاہور تحریک انصاف کے پاس چلا جائے گا .

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ مشکل صورت کا سامنا نون لیگ کو کرنا پڑرہا ہے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا وقت درست نہیں تھا لیکن انہوں نے ”خواص“کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے غلط وقت پر یہ فیصلہ کیا اگر عمران خان کی حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو آئندہ انتخابات میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے راستہ صاف تھا .

سنیئرصحافی وسیاسی تجزیہ نگار ایثار رانا نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کل تک جسے اپنی عظیم فتح قراردے رہے تھے آج خاموشی سے بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں بھی بعد میں پتہ چلا کہ ”خواص“نے انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے انہیں آئندہ انتخابات میں وہ کے پی کے میں مکمل حکومت اور بلوچستان بڑا حصہ دینے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی نشتوں کا لالچ دیا گیا تھا یہی لالچ آئی این پی کو بھی دیا گیا تھامگر اب دنوں جماعتوں کو سمجھ آگئی ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے.

انہوں نے کہا کہ اختر مینگل کوبھی یہی لالچ دیا گیا تھا اور ایم کیو ایم کو بھی اس لیے پیپلزپارٹی کے علاوہ باقی اتحادی جماعتوں نے وزارتیں تو لے لی ہیں مگر ان کے قائدین بظاہرلاتعلق ہوکر بیٹھ گئے ہیں. کالمسٹ وتجزیہ نگارجنیدنوازچوہدری نے کہا کہ اس وقت بے یقینی کی صورتحال ہے عمران خان کو ملک کی خاطر اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ آخرکار مذکرات کی میزپر ہی معاملات طے ہونے ہیں تو عمران خان آج ہی مذکرات کی میزپر بیٹھ جائیں اگر وہ سمجھتے ہیں ملک میں مقبول ترین لیڈر وہی ہیں تو وہ سوشل میڈیا یا کسی جلسے سے خطاب میں اپنے ورکروں کو اعتماد میں لیں انہیں بتائیں کہ وہ ملک کے مفاد میں مذکرات کرنے جارہے ہیں .

انہوں نے کہا کہ حکمران اتحاد میں ”ہاکس“موجود ہیں تو تحریک انصاف میں بھی ان کی کمی نہیں فریقین کو ملک کی خاطر انتہا پسند رویوں کو ترک کرکے مل بیٹھ کر معاملات کو ری ووزٹ کرکے فیصلے کرنے چاہیں انہوں نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کے کارکن اس وقت متحرک ہیں اور انہوں نے ایک پوری تحریک کھڑی کردی ہے اور ان کے بیانیے کو بھی قوم نے قبول کرلیا ہے اس لیے وہ ملک وقوم کو درپیش معاملات کو سمجھنے کی بجائے فوری انتخابات کی طرف جانا چاہتے ہیں .

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی ایک ماہ کے جلسوں کی تقاریر دیکھ لیں ان میں یکسانیت ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ان کے پاس مزید کہنے کو کچھ نہیں ہے لہذا وہ ضدکی بجائے ہوش مندی سے کام لیں یا تو تحریک انصاف اپنے استعفوں سے دستبردار ہوکر اپوزیشن میں بیٹھ کر انتخابی اصلاحات سمیت دیگر فیصلوں میں اپنے مطالبات منوائیں . انہوں نے کہا کہ مقتدرحلقوں نے سارا کھیل رچایا ہے اب انہیں بیچ میں آکر فریقین کو بیٹھا کر ان کے درمیان مذکرات طے کروانے چاہیں انہوں نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ میں عمران خان کے دوستوں کو آگے لایا جائے انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو انارکی اور تباہی سے بچانا ہے تو ایسا کرنا لازم ہوگیا ہے .

نوائے وقت اسلام آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹراور سنیئرصحافی شہزاد فاروقی کا کہنا ہے کہ نون لیگ نے پیپلزپارٹی کوآفر کی ہے کہ اگر اسمبلیوں کی مدت پوری کرنا ہے وہ اپنا وزیراعظم لے آئیں جس کے لیے نون لیگ انہیں ووٹ دینے اور سپورٹ کرنے کو تیار ہے ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں بہت سارے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے ان کے نزدیک چند دنوں میں عام انتخابات کی تاریخ اورنگران حکومت کا اعلان متوقع ہے انہوں نے کہا کہ اگر یہ حکومت قائم رہتی ہے تو جون کے فوری بعد انتخابی اصلاحات پر کام شروع ہوجائے گا جوکہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ دونوں جماعتوں کا مطالبہ رہا ہے .

ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“سنیئر صحافی اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل میاں محمد ندیم نے کہاقبل ازوقت انتخابات کے حوالے سے حکمراں اتحاد کے درمیان گہرا اختلاف رائے پایا جاتا ہے مسلم لیگ نون کا ایک دھڑاسمجھتاہے کہ فوری انتخابات ہوتے ہیں تو اسکا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا جبکہ دوسرے دھڑے کے نزدیک موجودہ صورتحال میں اس قدر سخت فیصلے لینے پڑیں گے کہ ان کی جماعت آنے والے عام انتخابات میں عوام میں جانے کے قابل نہیں رہے گی یہ نوازشریف کا دھڑا ہے جس کی جانب سے مریم نوازبار بار اپنی جماعت کو انتخابات میں جانے کا کہہ رہی ہیں .

انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت شامل حکومت کی اتحادی جماعتیں ”اونر شپ“لینے کو تیار نہیں پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی سندھ میں حکومت اس کے پاس ہی رہے گی جبکہ ایم کیوایم اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرچکی ہے مگر ان کے نزدیک یہ ”نورا کشتی“بھی ہوسکتی ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں ابھی تک قائدحزب اختلاف نہیں اور آنے والے دنوں میں اہم فیصلوں کے لیے آئین کے مطابق وزیراعظم کی قائدحزب اختلاف سے مشاورت کی ضرورت ہوگی لہذااس کے کچھ اراکین اپوزیشن بنچوں پر جی ڈی اے کے ساتھ بیٹھ کر حزب احتلاف کا کردار اداکرسکتی مگر اس وقت مشکل یہ ہے کہ شہبازشریف 174ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں جبکہ سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کے لیے 172ووٹوں کی ضرورت ہوتی پانچ جنرل اور دومخصوص نشتوں کے ساتھ مجموعی طور پر 7نشستیں ہیں اگر ان کے دوچار اراکین بھی ادھر ادھر ہوتے ہیں تو دو ووٹوں پر قائم شہبازشریف کی وزارت عظمی ختم ہوجائے گی انہوں نے کہا بظاہر پیپلزپارٹی انتخابی اصلاحات کی بات کرتی ہے مگر بات اس کے برعکس ہے جون میں چیئرمین نیب کی مدت ملازمت بھی ختم ہونے جارہی ہے جبکہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہونا ہے اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقررکے بغیرعام انتخابات نہیں ہوسکتے تو معاملات اتنے سادہ بھی نہیں جتنے شہبازشریف اور آصف علی زرداری بنا کر پیش کررہے ہیں .

میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ اپوزیشن بنانا اس وقت انتخابات وغیرہ سے بڑا مسلہ ہے اگرچہ بیک ڈور چینل رابطوں میں کسی حد تک برف پگھلی ہے مگر اس میں بات یہاں آکر اٹک گئی ہے کہ انتخابات دسمبر کروائے جائیں یا نومبر میں عمران خان کے قریبی دوست سنیئرتجزیہ نگار ہارون الرشید عمران خان کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ لچک کا مظاہرہ کریں اور نومبر میں انتخابات پر مان جائیں مگر عمران خان کی جانب سے مسلسل فوری انتخابات کا مطالبہ ہی کیا جارہا ہے میاں ندیم کے نزدیک یہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت پر دباﺅ بڑھائے رکھنے کی سیاسی چال بھی ہوسکتی ہے .

انہوں نے کہا کہ اگر اتحادی حکومت کو سال ڈیڑھ سال کا وقت مل جائے تو وہ معاشی حالات بہتر کرکے زیادہ عوامی حمایت حاصل کر سکتی ہے انہوں نے کہا کہ اتحادیوں میں سب سے زیادہ فائدے میں پیپلز پارٹی رہے گی کیونکہ پیپلز پارٹی نے جو وزارتیں لی ہیں، وہ سب ایسی ہیں کہ جن کے ذریعے وہ ملکی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو تسلیم کروا سکتی ہے خاص طور پر بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں میں پیسے تقسیم کر کے وہ ہر پارٹی سے زیادہ اپنی پارٹی کے لئے عوامی حمایت حاصل کرسکتی ہے دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون کے پاس پٹرولیم اور توانائی جیسی وزارتیں ہیں جہاں پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی کی طویل دورانیوں کی لوڈ شیڈنگ انہیں عوام میں غیر مقبول بنائے گی جس کی قیمت انہیں پولنگ بوتھ پر ادا کرنا پڑے گی تاہم نون لیگ اتنی آسانی سے پیپلزپارٹی کو بچ کر نکلنے نہیں دے گی یا تو پیپلزپارٹی کو برابرکا بوجھ اٹھانا پرے گا یا پھر شہبازشریف صدر کو اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس بجھوادیں گے ان کا کہنا ہے کہ ہاﺅس آف شریف کے اندر بھی اختلافات گہرے ہوتے جا رہے ہیں .

میاں ندیم نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت زمینی حقائق سے قطع نظر بیانئے کی ایک جنگ بھی جاری ہے جس کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے جہاں نوجونوں کی بری تعداد موجود رہتی ہے اس وقت نوجوانوں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے حق میں ہے کیونکہ دوسرا کوئی مضبوط بیانیہ موجود نہیں ہے اور اب ایک جوابی بیانیہ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس کا بیانیہ آخر میں کامیاب ہوگا جیت بھی اسی کی ہو گی .

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں