آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر آئینی ماہرین کی رائے منقسم

پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے انتخابات دوبارہ ہوں گے‘ گورنر پنجاب وزارت اعلی کے عہدے کے لیے دوبارہ انتخابات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں‘پنجاب ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں نون لیگ کے لیے بے پناہ مسائل ہونگے. عرفان قادر‘حامدخان اور دیگر کی غیرملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 18 مئی 2022 04:02

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر آئینی ماہرین کی رائے منقسم
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 مئی ۔2022 ) سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر آئینی ماہرین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ”ایڈوائزری جیورسڈکشن“ کے تحت اس صدارتی ریفرنس پر رائے دی ہے اور متعلقہ ادارے اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ وہ اس پر عمل درآمد کریں جبکہ دوسرے دھڑے کے وکلا کا کہنا ہے کہ چونکہ آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے اور انہوں نے آئین کے اس آرٹیکل کی جو تشریح کی ہے اور جو رائے دی ہے اس پر تمام ادارے عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں.

(جاری ہے)

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے صدر کے ریفرنس پر ایڈوائس دیتے ہوئے پاکستان کے آئین میں ہی ترمیم کر دی ہے جس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے جبکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 95 کے تحت کوئی بھی منحرف رکن نہ صرف ووٹ ڈال سکتا ہے بلکہ اس کا ووٹ شمار بھی ہوگا.

انہوں نے کہا کہ ملکی آئین سب سے مقدم ہے اور جب ملکی آئین میں کسی بھی منحرف رکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا تو سپریم کورٹ ایسا کیسے کرسکتی ہے عرفان قادر نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں پر تو تین ججوں نے صدارتی ریفرنس پر رائے دے کر اس میں ترمیم کر دی. انہوں نے کہا کہ اپنی رائے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ منحرف ارکان کی نااہلی کی مدت کا فیصلہ کرے جبکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ منحرف رکن صرف اسی مدت کے لیے ڈی سیٹ ہوگا جس مدت میں انہوں نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیا تھا.

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ رائے دی ہے جس کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا حکومت پر منحصر ہے انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم سپریم کورٹ کی یہ رائے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھتے ہیں اور وفاقی کابینہ سپریم کورٹ کی اس رائے کو تسلیم نہیں کرتی تو وفاقی کابینہ کا فیصلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا. انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کی اس رائے کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر آئین کا آرٹیکل 63 اے بے معنی ہو کر رہ جائے گاعرفان قادر کا کہنا تھا کہ اسی طرح تو اگر سادہ اکثریت سے کوئی جماعت حکومت بنا لے تو اس کے خلاف عدم اعتماد لائی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ منحرف رکن کے ووٹ عدم اعتماد کی تحریک میں شمار نہیں ہوں گے جس سے جو کہ جمہوریت کی آڑھ میں آمریت کو پروان چڑھائے گا.

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سپریم کورٹ نے کسی بھی معاملے پر کوئی رائے دی ہو تو تمام ادارے اس رائے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں کیونکہ اس بارے میں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 187 کا بھی حوالہ دیا جو کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق ہے انہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سے وفاقی حکومت تو متاثر نہیں ہوگی تاہم اس رائے کے بعد پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے ہونے والے انتخابات کالعدم ہوگئے ہیں.

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس رائے کے بعد پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے انتخابات دوبارہ ہوں گے انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب وزارت اعلی کے عہدے کے لیے دوبارہ انتخابات کے بارے میں کہہ سکتا ہے واضح رہے کہ موجودہ حکومت عمر سرفراز چیمہ کو بطور گورنر پنجاب کے عہدے سے ہٹا چکی ہے اور ان کی جگہ پر بلیغ الرحمان کو بطور گورنر پنجاب تعینات کرنے کی سمری بھجوائی جاچکی ہے اس سلسلہ میں حامد خان کا کہنا ہے کہ اگر صدر مملکت حکومت کی طرف سے بھیجی گئی سمری کو دس روز میں منظور نہیں کرتی تو یہی تصور کیا جائے گا کہ صدر کی طرف سے سمری منظور کر لی ہے.

موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لاسکتی ہے اور ایسی صورت میں تمام اراکین کے ووٹ شمار ہوں گے جس کے بعد یہ تحریک کامیاب یا ناکام ہوسکتی ہے مگر اس ترمیم کے بعد بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب کسی سادہ اکثریت والی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکے گی کیونکہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے.

اس پر ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے بعد اب اس صورتحال نے جنم لیا ہے کہ کوئی بھی رکن اسمبلی پارٹی کی ہدایت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، بجٹ یا آئینی ترامیم میں ووٹ نہیں دے سکتے کیونکہ ان کا ووٹ شمار ہی نہیں ہوگا. انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد اب اسی صورت ممکن ہے جب ایک مخلوط حکومت ہو جیسے عمران خان کی تھی اور اتحادی اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں سلمان اکرم راجہ کا خیال ہے کہ پنجاب میں ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کا الیکشن کرانا ہوگا فیصلے سے قبل آرٹیکل 63 اے کی تشریح یہی تھی کہ منحرف رکن کا ووٹ گنا جائے گا اور اس کے بعد اگر جماعت کا سربراہ چاہے گا تو اس رکن کے خلاف کارروائی ہوگی اور اس طرح پارلیمانی پارٹی کے حکم کے خلاف ووٹ دینے پر وہ ڈی سیٹ ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ لیکن آج کے فیصلے کے بعد کوئی بے وقوف رکن ہی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالے گا کیونکہ اس کا ووٹ تو گنا ہی نہیں جائے گا یہ ایک بے سود عمل ہوگا .


اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں