کچھ شعبوں میں اصلاحات کے بعد ہی انتخابی میدان میں اترا جائے گا‘انتخابی اصلاحات میں کتنا وقت لگتا ہے اس بارے میں قبل از وقت کوئی بات نہیں کہی جا سکتی.مولانا فضل الرحمان

اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تباہ و برباد معیشت کو سنوارنا ہے‘ یہ پی ڈی ایم کی حکومت نہیں ہے بلکہ اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے.جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 18 مئی 2022 04:11

کچھ شعبوں میں اصلاحات کے بعد ہی انتخابی میدان میں اترا جائے گا‘انتخابی اصلاحات میں کتنا وقت لگتا ہے اس بارے میں قبل از وقت کوئی بات نہیں کہی جا سکتی.مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 مئی ۔2022 ) پاکستان میں موجود اتحادی حکومت میں شامل جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ طے شدہ رائے ہے کہ کچھ شعبوں میں اصلاحات کے بعد ہی انتخابی میدان میں اترا جائے گا غیرملکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب باہمی مشاورت سے انتخابی مرحلہ طے کیا جائے گا اور انتخابی اصلاحات میں کتنا وقت لگتا ہے اس بارے میں قبل از وقت کوئی بات نہیں کہی جا سکتی.

(جاری ہے)

فوری انتخابات کے امکان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سال، سوا سال کی مدت ہی تو ہے اس سے آگے تو نہیں جایا جا سکتا اور ویسے بھی ابھی گدلے پانی سے دوبارہ گدلے پانی میں اترنا کوئی معقول بات نہیں ہو گی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تباہ و برباد معیشت کو سنوارنا ہے. انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پچھلے پونے چار سال میں تمام اداروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور اب ہمارے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ کیا ہم ملک دوبارہ صحیح راستے میں لا سکتے ہیں اور اس کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا.

فوری انتخابات کی طرف جانے کے حوالے سے ان کے چند روزقبل کے موقف پر ان کا کہنا تھا کہ رائے وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد میں نے اپنی رائے تبدیل کی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں عمران خان ایک تباہ حال معیشت دے کر گئے ہیں، سارے کام ایگزیکٹو آرڈر سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے، اس کے لیے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن کو مل کر پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے.

مولانا فضل الرحمان کی توجہ آرمی چیف کی تقرری کو عوامی سطح پر پیدا ہونے والی صورتحال کی طرف مبذول کرائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں تو کسی صورت میں اس معاملے کو سیاسی اجتماعات کا موضوع گفتگو نہیں بنانا چاہتا فوج کا اپنا نظام ہے جس میں اس کے سربراہ کو ایک مقام حاصل ہوتا ہے حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسی تقرری کرتی یا مزید مدت دیتی ہے.

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قوم کو سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ آرمی چیف کی تقرری کو سیاسی جلسوں میں زیر بحث نہیں لانا چاہیے مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے مطابق سویلین اداروں میں کوئی تقسیم آ جائے تو ازالہ ممکن ہے لیکن دفاعی اداروں میں تقسیم آ جائے یا سول اداروں کو قومی سلامتی کے اداروں سے لڑا دیا جائے تو پورا ملک اس کی قیمت ادا کرتا ہے.

مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کو ایک بین الاقوامی سازش کے تحت تخت اسلام آباد پر بٹھایا گیا تھا اور انہوں نے یہ بات اس وقت بھی کی تھی جب عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھایا جا رہا تھاانہوں نے کہا کہ وقت نے ہمارے موقف کو درست ثابت کیا ہے آج عمران خان کس منھ سے کہہ رہے ہیں ان کو بین الاقوامی سازش کے تحت اقتدار سے الگ کیا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پاکستان پر مسلط کیا گیا اور پھر پارلیمنٹ نے انھیں ووٹ کی قوت سے اقتدار سے باہر نکالا.

انہوں نے کہاکہ عمران خان جو چورن بیچنا چاہتے ہیں جوں جوں اس کی حقیقت عوام پر آشکار ہو گی تو زیادہ دیر تک یہ چورن کسی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہو سکے گا ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے کب عام انتخابات سے راہ فرار اختیار کی ہے ہمارے مطالبے پر عمران خان عام انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتے چلے آ رہے تھے ان کے مطابق ہم نے ایک حکمت عملی سے ووٹ چور حکومت کو گھر بھجوایا ہے.

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک 2018 میں ہونے والی انتخابی دھاندلی کے خلاف چل رہی تھی عوام کا ووٹ چوری ہوا تھا ہم ووٹ کی امانت عوام کو واپس دلانے کی تحریک چلا رہے تھے عمران خان کو گھر تو پارلیمنٹ نے بھجوایا ہے براہ راست عوام نے انہیں ہٹایا ہے جب تبدیلی آئی تو انتخابی اصلاحات کے بعد ہی انتخابی عمل شروع کرنے پر سب کا اتفاق رائے ہوا انہوں نے کہا کہ ہم تمام جماعتوں کی آرا کو پیش نظر رکھ کر ہی فیصلے کر رہے ہیں.

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہم شروع دن سے اسمبلیوں کا حلف اٹھانے کے حق میں نہ تھے لیکن مشاورتی عمل سے ہماری رائے میں تبدیلی آئی ہم عمران خان کی حکومت کو تحریک کے نتیجے میں ہٹانا چاہتے تھے لیکن جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھجوانے کی تجویز سامنے آئی تو اس کو قابل عمل سمجھ کر قبول کر لیا ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ پی ڈی ایم کی حکومت نہیں ہے بلکہ اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کی حکومت جو عمران کی حکومت چھوڑ کر آئی ہیں لہذا آپ اسے کل کی اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کی حکومت ہی کہیں.

صدر کے مواخذے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے پاس صدر کے مواخذہ کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے لیکن اصول کی بات ہے اگر صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ کا گورنر مستعفی ہو جاتا ہے تو پھر صدر کو بھی چلے جانا چاہیے‘فضل الرحمان کی صدرِ پاکستان کے عہدے کے لیے امیدواری کے سوال پر انہوں نے کہاکہ اس بارے میں تمام ہم خیال جماعتوں کی متفقہ رائے سے جو فیصلہ ہو گا وہ ہم سب کے لیے قبول ہو گا ہر سیاسی جماعت کو اس معاملہ پر اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے.

سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق سوال پر جے یو آئی( ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میں تو ہمیشہ اس بات کا حامی رہا ہوں کہ میاں نواز شریف کو پاکستان واپس آ جانا چاہیے اور ملک میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان نواز شریف کا ملک ہے، کوئی شخص ان کی پاکستانیت چھین نہیں سکتا پاکستان ہی ان کا سب کچھ ہے، وہ پاکستان سے باہر جن بنیادوں پر گئے ہیں ان ہی بنیادوں پر پاکستان واپس آنا ہے، ان کی واپسی کی راہ میں جو قانونی پیچیدگیاں ہیں ان کو دور کرنا ہو گا.

سیاسی حلقوں میں عمران خان کی گرفتاری کے بارے میں قیاس آرائیوں کے بارے میں فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق ریاست کوئی کارروائی کرتی ہے (تو ایسے میں) کسی کو کیوں رعایت دی جائے؟انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کوئی رعایت نہیں دی گئی نواز شریف نے جیل کاٹی ان کا پورا خاندان جیل میں ڈال دیا گیا عمران خان کون سا فرشتہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی خصوصی رعایت کی جائے آئین اور قانون خود اپنا راستہ بنائے گا.

انہوں نے صدر مملکت کی جانب سے چیف جسٹس کو لیٹر گیٹ پر خط لکھنے کے بارے میں کہا کہ جو کچھ بھی کر لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ خط جعلی تھا واضح رہے کہ قومی سلامتی کونسل کے دو اجلاسوں میں اس مراسلے کی تصدیق کی جاچکی ہے جبکہ ان کے اتحادی اور موجودہ وزیراعظم شہبازشریف اسمبلی کے فلور پر دھمکی آمیزمراسلے کی تصدیق کرچکے ہیں.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں