آرٹیکل63 اے کی تشریح :حمزہ شہبازکی وزارت اعلی خطرے میں ہے‘دوبارہ رائے شماری میں ووٹ پورے کرنا مشکل ہونگے. سیاسی مبصرین

وفاق میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز دونوں اپنی اکثریت کھو چکے ہیںدونوں حکومتیں عملی طور پر آج ختم ہوگئی ہیں.فواد چوہدری‘ حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب ہیں پنجاب میں حکومت مکمل طور پر فعال ہے مگر کابینہ جتنی جلدی بنے بہتر ہے.عطاءتارڑ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 18 مئی 2022 04:16

آرٹیکل63 اے کی تشریح :حمزہ شہبازکی وزارت اعلی خطرے میں ہے‘دوبارہ رائے شماری میں ووٹ پورے کرنا مشکل ہونگے. سیاسی مبصرین
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 مئی ۔2022 ) عدالت عظمی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل63 اے کی تشریح کے بعد پنجاب میں سیاسی طور پر کشمکش کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس کے بعد نو منتخب وزیراعلٰ پنجاب مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں عدالتی تشریح کو سیاستدان اپنے اپنے انداز سے لے رہے ہیں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کی تشریح صرف آئین کے آرٹیکل پر عدالتی رائے ہے فیصلہ نہیں ہے.

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت پر مختصر تشریح میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے، تاحیات نااہلی کا تعین پارلیمنٹ کرے گی، جب کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا.

امریکی نشریاتی ادارے ”وائس آف امریکا“کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے پاکستان کے مختلف آئینی ماہرین اور قانون دانوں سے اس سلسلہ میں رائے طلب کی ہے عدالت کی تشریح پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کہتے ہیں سپریم کورٹ کی رائے فیصلے کی حیثیت رکھتی ہے جس کا اطلاق تمام اداروں پر ہوتا ہے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب اس فیصلے کا اثر یہ ہے کہ وفاق میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز دونوں اپنی اکثریت کھو چکے ہیںدونوں حکومتیں عملی طور پر آج ختم ہوگئی ہیں.

پاکستان مسلم لیگ( ن) کے راہنمااور قانونی مشیر عطااللہ تارڑ کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب ہیں پنجاب میں حکومت مکمل طور پر فعال ہے مگر کابینہ جتنی جلدی بنے بہتر ہے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عدالتی تشریح کے بعد سب کی نظریں صوبہ پنجاب پر مرتکز ہیں اور بہت حد تک بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے. سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ جب عدالتی تشریح کی تفصیل آئے گی تو بہت سی باتیں واضح ہو جائیں گی اسی بات کا انتظار حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں کہ جب تفصیل سامنے آئے تو وہ اپنا لائحہ عمل واضح کریں گے انہوں نے کہا کہ عدالت کی مختصر تشریح کے مطابق تو وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز نے قائدایوان کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے جو ووٹ حاصل کیے ہیں وہ شمار نہیں ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب نہیں رہیں گے.

انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر اسپیکر پنجاب اسمبلی گورنر پنجاب کا عہدہ سنبھال لیتے ہیں اور حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ دیتے ہیں تو وہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکیں گے البتہ یہ دیکھنا ہے کہ کسی بھی ایوان میں ایک مرتبہ اسپیکر یا وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد پیش ہونے کی صورت میں یہ دوباہ کب پیش ہو سکتی ہے.

قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل کی تشریح ایک فیصلہ نہیں ہے، صرف ایک رائے ہے نامور وکیل اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کے مطابق سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ عدالت کی جانب سے فیصلہ نہیں آیا صرف تشریح کی گئی ہے یہ ایک صدارتی ریفرنس تھا۔

(جاری ہے)

جو انہوں نے ایڈوائزیری اختیارات کے تحت سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا.

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شق 186 کے تحت عدالتی تشریح کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا اور حکومت وقت کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ عدالتی رائے کو مانے یا نہ مانے عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا جبکہ آئین میں ایسا لکھا نہیں ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا جس سے یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنی مشاورتی جورسڈکشن میں آئین میں ترمیم کر رہی ہے جو کہ وہ نہیں کر سکتی آئین میں ترمیم دو تہائی اکثریت سے صرف ایوان کر سکتا ہے.

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ممتاز قانون دان حامد خان عرفان قادر کی اِس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں بلکہ رائے ہے لیکن اِس کا ماننا فریقین پر ضروری ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ عدالتی رائے ایک ایسے مسئلے پر ہے جو کہ زیرالتوا ہے جس پر رائے زیرسماعت ہی آئی ہے جن جماعتوں نے اس دوران انتخاب کرائے ہیں ا±ن پر عدالتی رائے کا اطلاق ہوتا ہے.

حامد خان سمجھتے ہیں کہ منحرف اراکان کے ووٹ شمار کیے جانے یا نہ کیے جانے پر عدالت کی جانب سے واضح رائے پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنس پر محفوظ فیصلہ18 مئی کو سنائے گا سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کے مطابق سپریم کورٹ کی رائے پنجاب حکومت پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ یہ عدالت کا فیصلہ نہیں ہے یہ صرف تشریح ہے انہوں نے کہا کہ جو منحرف ارکان ہوتے ہیں ا±ن کی نشست خالی ہو جاتی ہے یعنی وہ آئین کے مطابق ڈی سیٹ ہو جاتے ہیں جس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں ہوتی ہے انہوںکہ پنجاب حکومت عدالتی رائے ماننے کی پابند نہیں ہے ہاں اگر وہ سیاسی طور پر فیصلہ کر لیں تو حمزہ شہباز دوبارہ انتخاب میں جا سکتے ہیں.

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان سمجھتے ہیں کہ حمزہ شہباز کے بطور قائدایوان ہونے والے انتخاب کی اب کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی اصولاً وہ وزیراعلی پنجاب نہیں رہے ایسی صورت میں گورنر پنجاب کو چاہیے کہ وہ ایوان کا اجلاس بلائے اور قائدایوان کا انتخاب کرائے. سینیر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کے مطابق اگر حمزہ شہباز اکثریت کھو دیتے ہیں تو پنجاب میں قائد ایوان کا انتخاب دوبارہ ہو گا انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق اگر ایک رکن اسمبلی منحرف ہوتا ہے تو اس کی نشست خالی ہو جاتی ہے لیکن سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں اس کا ووٹ شمار نہیں ہو گا جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کی آئین میں موجود شق کی وقعت نہیں رہی.

احمد ولید سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی تشریح کو کچھ لوگ یوں بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ آئین کے بنیادی نکات کے خلاف ہے کیونکہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اختلاف رکھے احمد ولید کی رائے میں عدلیہ کے فیصلوں پر ہمیشہ سے اعتراضات ا±ٹھائے جاتے رہے ہیں ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ جس فریق کے خلاف عدالت کا فیصلہ آ جاتا ہے تو وہ اس ادارے پر تنقید شروع کر دیتا ہے اسی طرح جب فیصلہ حق میں آتا ہے تو تعریف کی جاتی ہے جیسے آج بھی فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت کی تشریح ایک اچھا فیصلہ ہے.

ممتاز قانون دان حامد خان سمجھتے ہیں کہ منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی پر عدالت نے واضح رائے نہیں دی ان کی نااہلی ہو گی یا نہیں ہو گی یا کتنی مدت کے بعد ہو گی عدالت نے تشریح آئین کے آرٹیکل63 اے کی کی ہے جس کے تحت ووٹ شمار نہیں ہو گا، جبکہ آئین کے مطابق ووٹ ڈلنے کے بعد شمار ہوتا ہے.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں