اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کیلئے طلب کرلیا

جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل لارجر بنچ کی عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 24 مئی 2022 18:56

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کیلئے طلب کرلیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 مئی ۔2022 ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب برطرفی کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو معاونت کیلئے طلب کرلیا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل لارجر بنچ نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کی.

(جاری ہے)

عمرسرفرازچیمہ کے وکیل بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ صدر پاکستان نے مارچ 2022 میں عمر سرفراز چیمہ کو گورنر پنجاب منتخب کیا تھا، وزیراعظم نے یکم مئی کو گورنر پنجاب کو ہٹانے اور آفس سیز کرنے کا حکم دیا، ہر صوبے میں گورنر ہوتا ہے جس کی تعیناتی وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر کرتا ہے گورنر صدر پاکستان کو جوابدہ ہوگا چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ تقرری میں کوئی مدت کا کچھ کہا گیا؟ بابر اعوان نے کہا گورنر کے تقرر کے لئے مدت کا کوئی ذکر نہیں.

عدالت نے استفسار کیا کیا گورنر صوبے میں فیڈریشن کا نمائندہ ہوگا یا صدر کا نمائندہ ہوگا؟ جس پر وکیل نے بتایاکہ گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے جو اسٹیٹ کو چلاتا ہے جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر صوبوں کو چلاتا ہے؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خودمختاری دی گئی ہے جس پر بابر اعوان نے کہا گورنر فیڈریشن کا نمائندہ نہیں اور نہ ہی فیڈریشن اسے ہٹا سکتی ہے.

عدالت نے استفسار کیا کہ صدر اگر چاہیں تو فیڈریشن کی مرضی کے بغیر بھی کسی کو عہدے پر برقرار رکھ سکتا ہے؟ بابر اعوان نے کہاکہ گورنر اور اٹارنی جنرل آفس صدر کے ماتحت ہیں، گورنر کو ہٹانے کے 2 طریقے ہیں، پہلا طریقہ استعفٰی ہے، گورنر اپنا استعفی کابینہ نہیں، صدر کو بھجوا سکتا ہے، اگر صدر سمجھے کہ ہنگامی صورتحال ہے تو کسی ایڈوائس کے بغیر ایمرجنسی لگا سکتا ہے، گورنر کے تمام اخراجات کی منظوری بھی صدر دیتاہے، وزرائے اعلیٰ اور ان کے دفاتر کی تنخواہیں اور الاﺅنسز کی منظوری فیڈریشن کرتی ہے، گورنر کا استعفی کابینہ منظور نہیں کرسکتی، پریذیڈنسی کے لیے کوئی رولز آف بزنس نہیں ہیں.

عدالت نے استفسار کیا آئین میں ترمیم کا متعلقہ فورم کون سا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایاکہ آئین میں ترمیم کا کام ہی متعلقہ فورم ہے چیف جسٹس نے کہاکہ گورنر مجلس شوری کا ممبر نہیں ہوتا کس کی نمائندگی کرتا ہے؟ یہ تو بڑا عجیب ہو گا کہ گورنر کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم صدر کو ایڈوائس دے مگر اسے ہٹانے کا اختیار نہ ہو؟. بابر اعوان نے کہاکہ کیا صدر کا آفس صرف ڈاکخانہ ہے؟ گورنر صدر کا نمائندہ ہوتاہے جو ہر صوبہ میں ایک ایک ہوتاہے، کل کو اگر کسی ایگزیکٹیو کو خیال ہو کہ آرمی چیف فلاں بندہ ہوتو ایسا ہو سکتا ہے، گورنر کو ہٹانے کا صوابدیدی اختیار صدر کے پاس ہے جس پرعدالت نے کہاکہ یہ تو بڑا عجیب ہو جائے گا کہ صدر وزیراعظم کے ایڈوائس پر گورنر لگائے، عدالت نے استفسار کیا گورنر لگاکر اگلے دن صدر کو پسند نہ آئے تو گورنر کو ہٹائے گا؟ 58 ٹو بی کے ساتھ صدر کے پاس بہت سارے اختیارات ختم ہوگئے ہم برطانوی ریاست کو نہیں فالو کررہے ہم کوئی عام پاکستانی نہیں.

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ آئینی ایشو ہے اس پر اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں عدالت نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر برطرفی پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی ہے واضح رہے کہ عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر عہدے سے برطرفی کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے لارجر بینچ تشکیل دیتے ہوئے درخواست رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کی تھی اس سے قبل سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں اپنی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی.

ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آئین آرٹیکل 48(2) کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 101(3) کے لحاظ سے واضح ہے کہ صدر کسی بھی معاملے کے حوالے سے اپنی صوابدید کے مطابق کام کرے گا جس کے لیے وہ آئین کے مطابق بااختیار ہے عمر چیمہ نے آرٹیکل 101(3) اور 48(2) پر بھی انحصار کیا جن کا انہوں نے متعدد ٹویٹس میں بھی یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا کہ وزیراعظم کے مشورے کا خود کار طریقے سے عمل درآمد اس مدت کے بعد ہوتا ہے جس دوران صدر کو اس پر عمل کرنا ہوتا ہے لیکن گورنر کو ہٹانے کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا.

آئین کے مطابق صدر، وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی سمری کو 14 دن تک بغیر کسی فیصلے کے روک سکتے ہیں مدت ختم ہونے پر وزیر اعظم اس سلسلے میں اپنے مشورے کی دوبارہ توثیق کر سکتے ہیں اور صدر اپنا فیصلہ مزید 10 دن تک روک سکتے ہیں اس مدت کے بعد گورنر کو ہٹا دیا جائے گا اور وزیر اعظم کو نیا گورنر مقرر کرنے کا اختیار ہے تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے بہت سارے دیگر معاملات کی طرح آرٹیکل101اور148کی تشریخ کی بھی ضرورت ہے.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں